پنجابی ادب میں پدر شاہی کلچر کی نشاندہی کرتا یہ مضمون عورت مارچ لاہور 2021ءمیں شامل عورتوں کے نام ہے۔
فوزیہ رفیق
یورپی آرٹ میں ایک لہر تھی دادا ازم، پنجابی ادب میں ایک سیلاب ہے بابا ازم۔ ناموں سے لگتا ہے جیسے دادا اور بابا ایک ہی چیز ہوں گے، در حقیقت ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دادا روایت توڑنے کا نام ہے اور بابا روایت کی غلامی۔ روایت کون سی؟ بابے کی اپنی۔ جب کوئی مصنف اپنی تحریروں میں پدر شاہی اقدار کو فضیلت دیتا ہے اور ان کا پرچار کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بابا ازم ہے۔
ہم جانتے ہیں، ہماری سوسائٹی پدر شاہی کلچر میں ڈوبی ہوئی ہے، تو پنجابی کلچر بھی اس کے زیر اثرہو گا، پھر بھی میں نے کم ہی سنا ہے کہ پنجابی مصنفین نے اس بارے میں کوئی بات چیت کی ہو۔ اکثر دیکھتی ہوں، پنجابی کے کلاسیکی شاعروں کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے اکٹھ ہوتے رہتے ہیں۔ وہ بھی ضروری ہے، مگر کبھی یہ بھی دیکھا جائے کہ آج کل کی تحریروں میں آج کل کے مسائل کی کیا صورتحال ہے۔
سچ یہ ہے، ملامتی صوفی شاعروں کے علاوہ پنجابی ادب میں بابا ازم جگہ جگہ ملتا ہے۔ یہ بابا ایک فیوڈل لارڈ ہے جو پیری فقیری کے بھیس میں رہتا ہے؛ عورتوں کو خود سے کمتر سمجھتا ہے، کمزور کرتا ہے، استعمال کر کے آگے بڑھتا ہے، اصل میں ان سے ڈرتا، بظاہر دبا کر رکھتا ہے۔ پنجابی ادب کایہ فیوڈل لارڈ صرف عورتوں کے حق میں متعصب نہیں…غریبوں، مزدوروں اور کارندوں کو بھی کمتر سمجھتا ہے اور مذہبی اور جنسی اقلیتوں کو بھی۔ کہنا یہ چاہتی ہوں کہ ایک متعصب ذہن ہر طرف تعصب ہی کی نظرڈالتا ہے۔
آرٹ اور ادب میں بابا ازم کی دو تین بنیادی نشانیاں ہیں، جو اکٹھے بھی نظر آتی ہیں اور علیحدہ علیحدہ بھی۔ عورت پر الزام رکھ، وکٹم کو وکٹمایز کر، مرد۔خاندان۔ سسٹم کو الزام سے بچا نا۔ مظلوم کی کہانی ظالم سے سنتے رہنا اور اس بیانیے کو مان دے، مظلوم کی آواز کسب کرنا۔ عورتوں کے متعلق جھوٹی، غلیظ اور فحش تحریریں لٹریچر کے طور پیش کر، عورت ذات کو رد کرنا۔
عورت پر الزام رکھ، وکٹم کو وکٹمایز کرنا
سوسایٹی میں ہمارا تجربہ ہے، جہاں کوئی کام غلط ہو جائے، الزام عورت کو دیا جاتا ہے، جبکہ اکثروہی اس غلط کام کا نشانہ ہوتی ہے۔ مثال: طلاق ہو گئی یا اولاد نہیں ہوئی تو عورت کو اپنی ذاتی اور ماحولی قیمت تو دینی ہو گی، اس پر ذمہ داری اس کی مان کر اور الزام اس پہ دھر کر عورت کو دوبارہ ہتک اور ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی ایک اعلی مثال حدود آرڈیننسوں میں زنا بالرضا کا تصور ہے جس کے تحت زنا کی شکار عورت کو قانون کی مدد سے دوبارہ وکٹمائیز کیا جاتا ہے۔
پنجابی ادب میں اس کی ایک مثال یہ ہے: منظور جھلاّ کا گیت ’لگی والیاں نوں نیند نہیں آندی ‘ ہم سب نے کتنی بار سنا ہو گا اور کتنے مشہور گائیکوں نے اسے گایا ہو گا۔ کیا ابھی تک کسی دانشور سوجھوان نے یہ نوٹ کیا کہ یہ گیت کتنا بڑا جھوٹ ہے؟ سوجھوانوں سے تو نہیں، مجھے ایک ان پڑھ عورت سے پتہ چلا۔ لاہور ریڈیو پر یہ گیت عالم لوہار کے انگ میں لگا ہوا تھا، میں جھوم رہی تھی، میری ماں قریب سے گذری، کہتی ہے، ’منظور جھلاّ بھی بالکل ہی بے وقوف ہے، جس کا سب کچھ لٹ گیا، اسے ہی دوش دیے جا رہا ہے۔‘ میں نے جھومنا بند کیا اور سسّی پنوں دوبارہ پڑھی۔
پتہ چلا، سسّی پر سوال اٹھانے میں جھلے کا مقصد تھا کہ پنوں کے اغوا اور پھر اس کی موت کا الزام اس کے قاتل بھایوں پر نہ آئے۔ بھایوں پر الزام کا مطلب ہے اس کے خاندان برادری پر الزام۔ اس کی بجاے بولو جھوٹ، اس ٹریجیڈی کی ذمہ داری عورت پر ڈالو، سب مانیں گے۔ تو دیکھ لیجیے، پنجاب میں سب مانتے ہیں۔
جھلاّ چھوٹتے ہی سسّی کے پیار پر شک، کہتا ہے، ’لگی والیاں نوں نیند نہیں آندی، تیری کیویں نی اکھ لگ گئی‘، پھر زلیخا، ہیر اور سوہنی کو افضل کر کر دکھاتا ہے، پھر چکور، مور اور کونج لے کر آتا ہے، آخر کہتا ہے سسّی کو بھی چھوڑیں اور زمانے کو بھی، ’گل لگیاں دی پچھ منظور توں، اوہو سوندا جنہوں یاد نہیں ستاوندی‘۔ ادھر اپنے ہی بنائے ایک فضول کلیے پر اس نے سسّی کو قربان کیا اور بات ختم کر دی۔ جھلّے نے یہ نہیں سوچا، ہر کوئی ایک طبیعت کا نہیں ہوتا، کوئی انسان انتظار میں سو بھی جاتے ہیں۔ یہاں جھلّے نے جہالت سے کام لیااور آگے جا کر دھوکے سے۔ دھوکہ یہ کیا کہ ہمیں باور کرانے کی کوشش کی کہ سسّی جاگتی رہتی تو پنوں کے بھائی پنوں کو ساتھ نہ لے جا سکتے، جیسے سسی انہیں روک سکتی تھی۔ مرد کے خاندان کے مردوں کو ایک باہر کی عورت کیسے روک سکتی ہے اور پھر وہاں جہاں وہ اپنی کرنی پہ تلے ہوں؟ پھر اس بھولے بادشاہ نے اپنی پدر شاہی جہالت اور دھوکے کو ہتک میں لپیٹا، سسی کو بار با ر ’نی‘ کر کے بلایا اور عورتوں پریہ کاری ضرب ایک خوبصورت گیت میں ڈھال کر ہمارے ہاتھ تھما دی۔
لگتا ہے، جس زمانے میں جھلے نے یہ گیت لکھا، شاید اسے کسی عورت پہ بہت رنج تھا اور وہ ہر صورت اس پہ الزام رکھنا چاہتا تھا۔ اس چکر میں وہ پنوں کی موت کا سوگ منانے نکلا، اس جوش میں یہ بھی بھول گیا کہ پنوں سے پہلے جان تو سسّی کی گئی تھی۔
جتنے ظالم اور سخت دل پنوں کے باپ بھائی تھے جنہوں نے اسے اس کی سہاگ رات قابو کیا، اتنا ہی ظالم اور سخت دل منظور جھلا ّ تھا جس نے یہ گیت لکھ کر سسّی پر وہ الزام رکھے جو اس کے تخلیق کار شاہ عبدالطیف بھٹائی نے نہیں رکھے تھے اور اتنے ہی ظالم ہم ہیں جو اس پہ آج تک جھوم رہے ہیں۔ مگر پھر یہی تو کمال ہے بابا ازم کا۔
جھلاّ(1929-1973) کوئی اکیلا نہیں، پیلو (1563-1606) نے ’مرزا صاحباں‘ میں مرزا کی ماں بہنوں اور ونجھل کے منہ سے جو کہلوایا، وہ بابا ازم کا کھلا پرچار ہے۔ جیسے ہر طبقے کی عورت اپنی زندگی میں کئی بار اپنے لیے ’طوائف‘ کا لفظ سنتی ہے، اسی طرح پیلو کا یہ فرمان درمیانے اور نچلے طبقوں کی عورتیں کئی بار سنتی اور برداشت کرتی ہیں:
چڑھدے مرزے خان نوں، ونجھل دیندا مت
بھٹ رناں دی دوستی کھری جنہاں دی مت
یہ تو صرف ایک دو مثالیں ہیں پنجابی ادب میں وکٹم کو وکٹمایز کرنے کی، ویسے آپ دیکھنا چاہیں تو بہت مل جایں گی۔
مظلوم کی کہانی ظالم سے سنتے رہنا
تاریخ میں دیکھا ہے، کچھ گروہ ظالموں کا تاریخی رول ادا کرتے ہیں، جس کے لیے وہ دوسرے گروہوں کو مظلوموں کا تاریخی رول ادا کرتے رہنے پہ مجبور کیے رکھتے ہیں۔ مثال: بادشاہ اور رعایا، مالک اور غلام، سرمایہ کار اور مزدور، ذمیندار اور مزارعہ، عورت اور مرد۔ اگر ہم رعایا کا حال بادشاہوں سے، غلاموں کی کہانیاں مالکوں سے، مزدوروں کے حالات سرمایہ کاروں سے، مزارعوں کا حال ذمینداروں سے اور عورتوں کی بیتی مردوں سے سنتے رہیں گے تو اس کا مطلب ہے ہم پدر شاہی کلچر میں خوب بسے ہوئے ہیں۔
ہم جانتے ہیں، ان گروہوں میں سماجی طاقت ایک گروہ کے ہاتھ میں ہے جس کے ذریعہ وہ دوسرے گروہوں کو قابو میں رکھتے آئے ہیں، پھر بھی جہاں ہمیں موقع ملتا ہے ہم بھی طاقتور گروہ کے نمائندوں کی بات سنتے ہیں، کمزور گروہوں کے نمایندوں کی نہیں۔ نتیجہ یہ کہ عورت کی کہانی اکثر مرد بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں مسلہ یہ ہے کہ بیان کرنے والا خود استحصالی گروہ سے ہے اور اس کے ذاتی مفادات اس گروہ سے جڑے ہوئے ہیں، اس کا نقطہ نظر عورتوں کے گروہی مفادات کی نہ تو عکاسی کر سکتا ہے اور نہ ان کا دفاع۔ چنانچہ اکثر اوقات جب مرد لکھاری کوئی ایسا مسئلہ اپنے بیانیہ میں لاتا ہے جس میں عمومی طور پر عورت مرد کے استحصال کا براہ راست نشانہ بنتی ہو، تو وہ اس مسئلے کو برداشت کرنے اور حل کرنے کی ذمہ داری عورت پر ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
ادھر سرے شہر (کینڈا) میں سہاراسروسز سوسایٹی نے ایک ڈرامہ پیش کیا انسسٹ اور جنسی استحصال کے بارے میں جس کی وجہ سے بچیاں، بچے اور عورتیں تمام عمر عذاب جھیلتے ہیں۔ وہ ڈرامہ ہمارے شاعر دوست اجمیر روڈے نے لکھا، نام تھا ’میلے ہاتھ: ٹینٹڈ ہینڈز‘۔ وہ سپر ہٹ گیا، پنجابی کمیونٹی نے بہت پسند کیا۔ ہم نے بھی دیکھا، پہلے تو وہ ڈرامہ دھیمے دھیمے چلتا رہا جیسے ٹی وی پر اردو ’فیملی‘ کامیڈی ڈرامے ہوتے ہیں، ماں، باپ، بیٹی اور ایک چچا ٹائپ رشتہ دار۔ میں نے سوچا، خیر ہے، پوری کمیونٹی کو سمجھانے کیلیے بات ذرا نرم کر کے ہو رہی ہے۔ مگر اس ڈرامے کا اخیر ہضم نہیں ہو سکا۔ آخر میں وہ رشتہ دار بھی غائب ہو جاتا ہے اور باپ بھی، بغیر کسی ریزولیوشن کے۔ سٹیج پر ماں بیٹی رہ جاتی ہیں اس مسئلے کے اثرات اور ٹراما سے ڈیل کرنے کیلئے۔ یہ دیکھئے پھر ڈیل کیسے کرتی ہیں، آگ جلا کر ایک ریچوال کرتی ہیں جس میں بیٹی خود کو بچانے کیلئے اس مرد کو معاف کر دیتی ہے۔ اف!
ہاﺅس فل کیسے نہیں جاتا، بابا اجمیر نے تو جیسے مردوں کو بازو دے کر بچا لیا۔ بات نیوکلیئر فیملی سے باہر نہیں جانے دی، زیادتی کرنے والے کی کوئی پکڑ نہیں ہوئی، مجرم کو جرم کی سزا نہیں ملی۔ تو پھروہ بچیاں اور لڑکیاں جو یہ ظلم برداشت کر رہی ہیں ان کو کیا پیغام ملا؟ پیغام ملا کہ بات تو یہ غلط ہے لیکن اگر آپ کے ساتھ ہو جائے تو آپ بڑی بنو اور اندر ہی اندر کرودھ غصہ نکال اپنے بچاﺅ کیلئے مرد کو معاف کردو، بات ختم کرو، دوسروں کو بتانا اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی ہے۔ غور کیجیے تو دوسروں کو نہ بتانے کا مطلب ہے کہ اس مرد کو کمیو نٹی کے دوسرے بچوں بچیوں پر یہ زیادتی کرتے رہنے کی آزادی ہے۔
اگر مصنف کا مقصد یہ نہیں تھا تو آخر میں مرد نے ذمہ داری کیوں نہیں لی؟ اسے کیوں کوئی سزا نہیں جھیلنی پڑی؟ اگر مصنف کی سوچ ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانا یا بھیج دیا جانا مرد کی سزا ہے، تو پھر یہ وہی سزا ہے جو چرچوں میں کوڑھی پادریوں کو دیتے ہیں: ٹرانسفر! جی ہاں، ٹرانسفر۔ نئی جگہ، نئے لوگ۔ نئے معصوموں میں کوڑھ پھیلانے کی کھلی چھٹی۔
اس کی بجائے دونوں عورتوں نے واک آﺅٹ کیوں نہیں کیا اور ہمیں سٹیج پر دو مرد یہ ریچوال، یہ سبب کرتے کیوں نہیں دکھائے گئے کہ کیسے کیا جائے کہ اس پدر شاہی سسٹم میں مردوں کا یہ عذاب بچوں عورتوں پر نازل نہ ہواور نہ انہیں بھگتنا پڑے۔ کیوں دونوں عورتوں کو کاﺅنسلنگ اور دوسری سپورٹ سروسز استعمال کرتے نہیں دکھایا گیا؟ مرد کے اس ظلم کو صرف عورتوں نے کیوں بھگتا؟
یہی بابا ازم ہے، کمیونٹی میں انسسٹ جنسی استحصال سا گجھا اور گنجھلک مسلہ کھولو اور اسے مرد کے حق میں ریزالو کرکے تھما دو۔
عورتوں کے بارے میں جھوٹی، غلیظ اور فحش تحریریں لٹریچر کے طور پر پیش کرنا
ویسے تو میں نے دنیا کی ہر مشہور عورت کے بارے میں مردوں کے لکھے فحش قصیدے دیکھے ہیں، مگر وہ اردو یا انگریزی میں تھے یا پمفلٹ، گٹر پریسوں میں چھپے ہوے مضمون جنہیں ان کو لکھنے والے لٹریچر بنا کر پیش نہیں کر رہے تھے۔ دو تین سال پہلے پاکستانی پنجاب میں کہانیوں کی ایک کتاب چھپی جو بابا ازم کی اس مکروہ شکل کی ایک اعلی مثال ہے۔ اس میں مصنف نے اپنے ذہن کی فحش گندگی نکال پنجاب کی کچھ مانی ہوئی فنکار عورتوں پر لا پھینکی، جن میں سے کچھ فوت ہو چکی تھیں اور اس حملے کا جواب نہیں دے سکتی تھیں، جیسے نسرین انجم بھٹی اور شائستہ حبیب۔
حملہ اتنا گھٹیا تھا کہ جو لوگ ان عورتوں کو جانتے تھے ان کیلئے چپ رہنا دشوار ہو گیا۔ میں اپنا یہ مضمون بہت گندا نہیں کرناچاہتی اس لیے یہاں اس ’ لٹریچر‘ کی ایک نرم مثال پیش کرتی ہوں۔
بہت احتجاج ہوا، مصنف سے کہانی واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ وہ اور اس کے حواری اڑ گئے، نہ کہانی واپس لی اور نہ معافی مانگی۔ پنجابی ادب میں بابا ازم کے صدقے، اس لکھاری کی کوئی پکڑ نہیں ہوئی، وہ اب بھی دانشورکے طور ادبی محفلوں میں شرکت کرتا ہے۔
بنیادی بات
پنجابی ساہت اور ادب میں باباازم کی صرف یہ تین نہیں اور بھی صورتیں ہیں، ہمیں ان سب کو جاننے اور پہچاننے کی ضرورت ہے تا کہ ہم ان تعصبات سے جان چھڑا سکیں۔ اس سلسلہ میں تیسری نشانی والے قصے میں کچھ اور باتیں سامنے آئیں جو ہمیں بابا ازم سے مقابلہ کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
اس فحش کہانی کا لکھاری اور اس کے حواری عورتوں کی اس ایبیوز کو لٹریچر کے طور پر پیش کیے چلے جا رہے تھے جب کچھ دوستوں نے وہی گندے الفاظ اور غلیظ خیالات ’ان کی عورتوں‘ کے بارے میں کئے، اس پر وہ بہت تڑپے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ جھوٹ ٹھیک تھے جو ہمارے بارے میں لکھے گئے، تو یہ جھوٹ کیوں ٹھیک نہیں تھے؟ اس میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ’اپنی عورت ‘کا بدلہ لینے کیلئے ’دوسرے کی عورت‘ کی ہتک کرنا مردوں کے بنائے اس سسٹم کاطریقہ ہے، ہمارا نہیں۔ یہ بات میں نے فیسبک پر اس گروپ میں بھی کہی تھی جو اس ٹایم میسینجرمیں بنا تھا اور میں نے کچھ دوستوں کو بھی اس کام سے منع کرنے کی کوشش کی ، کیونکہ سوال پھر وہی ہے: اگر وہ غلط تھا تو یہ ٹھیک کیسے ہے؟
اس ٹایم اس طریقے کے خلاف میں نے کھلا سٹینڈ نہیں لیا اس لیے کہ استعمال کیے جانے والے ہتھیار کی قسم تو ایک تھی مگر اسے استعمال کرنے کا مقصد یا وجہ ایک نہیں تھی۔ کتاب لکھنے والے نے یہ ہتھیار جمہوریت پسند فنکاروں کی کردار کشی کیلئے استعمال کیا اور نعیم سادھو اور اس کے حامیوں نے ان کو روکنے کیلئے۔ یہ اہم ہے کہ صرف ہتھیارنہیں، اس کو استعمال کرنے کا مقصد بھی سامنے رکھا جائے۔
اب جب دو سال گذر چکے ہیں، میں پیچھے دیکھتی ہوں تو اس وقت ان عورتوں کی ایبیوز کے خلاف کھلا سٹینڈ نہ لینے پر مجھے بہرحال شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں میری اس کمی میں بابا ازم کا ہاتھ تھا۔ جب تک مجھے فیسبک پہ مشتاق صوفی کی ایک پوسٹ سے اس بدشکل تحریر کا علم ہوا اور جب تک میں نے دو تین کوٹیشنز دیکھیں، مورچے بن چکے تھے، گولہ باری شروع ہو چکی تھی اور دونوں اطراف مرد ایک دوسرے پر حملہ اور ہو چکے تھے۔ میں نے کوشش کی مگر میری شنوای نہیں ہوئی۔ افسوس، جیسے آنر کلنگز میں ہوتا ہے، دونوں طرف عذاب عورتوں ہی نے جھیلا۔
یہ گومگو کا عالم صرف مجھ پہ طاری نہیں تھا، باقی ترقی پسند عورتیں بھی شاید کچھ ایسا ہی محسوس کر رہی تھیں، ’نہ ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رقاب میں‘۔ اس سچوایشن میں فیمینسٹ کولیکٹونے کچھ حالات سنبھالے اور دو تین اہم اقدامات کیے۔ ان کی ممبران نے اس کتاب سے متعلق ایک تقریب میں جا کر اس ٹولے کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا، نسرین انجم بھٹی پر ایک میورل بنائی اور شہر میں موقع کی جگہوں پر پوسٹر لگا ئے۔ بعد میں ای میل کے ذریعے عورتوں کی بات چیت ہوئی جس کے نتیجے میں عورتوں کا ایڈوکیسی گروپ بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو پنجابی کے فنون لطیفہ میں پدر شاہی کلچر کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ویب سائٹ بنائے جہاں جمہوریت پسند فنکار عورتوں کے آرٹ کو اکٹھا کر کے سامنے لایا جائے، ان کے کام پر مزید ریسرچ کی جائے، عورت دشمن تحریروں اور میڈیا کی نشاندہی کی جائے اور پنجابی ادب اور ساہت میں عورتوں کی ایبیوز کو روکا جائے۔
اب بھی آگے جانے کا راستہ یہی ہے۔ اس پراجیکٹ کو فیمنسٹ کولیکٹو، عورت مارچ لاہور اور عورتوں کی دوسری ترقی پسند اور جمہوری تنظیمیں مل کر تشکیل دیں تو پھر کوئی مضبوط اور خوبصورت بات بن سکتی ہے۔
بابا، بوڑھا، بڑا، وڈیرا، باپ، دادا، بڑی عمر کا رشتہ دار، فقیر، سوالی، غریب ، بزرگ، صوفی اور پنجابی کلاسیکی شاعرکے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سارا کاظمی اور شاہد مرزاکی مہربانی جن کی فیڈبیک نے اس مضمون کو جلا دی۔