ڈاکٹر مظہر عباس
ممتاز دولتانہ، جو 1951ء سے 1953ء تک وزیر اعلی پنجاب رہے، ایک زرعی اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ تھے البتہ ممتازدولتانہ کے فکری رجحان (سوشلسٹ نظریہ) کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں، تاہم، اس کا عملی اظہار دیکھنے میں نہیں ملتا۔ اس کے پیچھے ممکنہ بنیادی وجہ ان کی افتخار حسین ممدوٹ اور فیروز خان نون جیسے جاگیرداروں کے ساتھ اقتدار کے لئے ان کی جدوجہد ہو سکتی ہے۔
ممتاز دولتانہ، خان بہادر میاں احمد یار خان دولتانہ کے بیٹے، کا تعلق ضلع وہاڑی کے علاقے لڈن سے تھا۔ اس کی طاقت کا سرچشمہ ملتان، سرگودھا اور راولپنڈی اضلاع کے جاگیرداروں کی حمایت سے پیوست یا مشروط تھا۔ اس میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے بھائی نواب سجاد علی خان اور سر سکندر حیات خان کے بیٹے سردار شوکت حیات خان جیسے لوگ شامل تھے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل دولتانہ کی اہمیت اور مقبولیت میں اضافہ ان کے والد کی وفات کے بعد ہو۔ والد کا انتقال 6 اگست 1940ء کو ہوا۔
ممتازدولتانہ اور سردار شوکت حیات نے پنجاب میں خضر حیات خان ٹوانہ کا اثر و رسوخ کو زائل کرنے کے لئے اور توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لئے مسلم لیگ کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے قیام پاکستان کا پیغام دیہی علاقوں تک پہنچا کر پنجاب میں مسلم لیگ کی مہم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے پنجاب کے بیشتر علاقوں کا دورہ کیا اور منٹگمری (اب ساہیوال)، لائل پور (اب فیصل آباد)، شیخوپورہ، سرگودھا، جھنگ، سیالکوٹ اور راولپنڈی میں جلسوں سے خطاب کیا جن میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
1946ء میں افتخار حسین ممدوٹ مسلم لیگ کے صوبہ پنجاب کے صدر اور ممتاز دولتانہ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ 1947ء میں برصغیر کی آزادی اور تقسیم پنجاب کے بعد، ممدوٹ پنجاب کا وزیراعلیٰ اور دولتانہ اس کی کابینہ میں وزیر بنا۔ تاہم، جلد ہی صوبہ اور پارٹی دونوں کا اقتدار حاصل کرنے کے لئے ان کے مابین ایک گروہی تنازعہ شروع ہو گیا۔
چند ہی مہینوں میں ممتاز دولتانہ اور شوکت حیات نے افتخار ممدوٹ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور یہ الزام لگایا کہ وہ اپنی کابینہ کی بجائے اپنے کچھ دوستوں خصوصاً نوائے وقت کے ایڈیٹر، حمید نظامی، کے مشورے پر عمل کرتا تھا۔ بہت جلدانہوں نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے دی۔ اس تنازعہ میں ممدوٹ نہ صرف اپنی وزارت کھو بیٹھے بلکہ پارٹی چھوڑنے پر بھی مجبور ہوگیا۔ نتیجتاً صوبائی حکومت کو گورنر فرانسس موڈی کے سپرد کردیا گیا۔
دولتانہ بالآخر 1949ء میں پنجاب مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوگئے اور 15 اپریل 1951ء کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ بعد میں ان کی جگہ 3 اپریل 1953ء کو دھڑے بندی کی سیاست کے ایک اور فائدہ اٹھانے والیجاگیردار سیاستدان، فیروز خان نون، نے لے لی۔ دولتانہ کی حکومت پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ احمدیہ مخالف تحریک کو کچلنے میں ناکام رہی جو کہ بعد میں ریاست کے خلاف بغاوت میں تبدیل ہوگئی۔ نتیجتاً 6 مارچ 1953ء کو پنجاب میں مارشل لا لگا دیا گیا اور صوبے کا انتظام فوج نے سنبھال لیا۔
کہا جاتا ہے کہ دولتانہ نے اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے مشورے پر استعفیٰ دیا تھا۔ دولتانہ کی کابینہ، جس میں صرف ایک مہاجر سیاستدان تھا، کو ’جاگیرداروں کی کابینہ‘ کانام دیا گیا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دولتانہ نے زرعی اصلاحات کی وکالت کی لیکن کبھی بھی انقلابی اصلاحات کی بات نہیں کی۔ اسی لئے زرعی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے معتدل اصلاحات کی سفارش کی۔ پاکستان مسلم لیگ کی کونسل نے اپنی پہلی ہی میٹنگ میں فروری 1949ء میں پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ ملک میں ملکیت زمین اور قبضہ زمین سے متعلق موجودہ نظام میں موجود خامیوں کا مطالعہ کرے اور ان کو دور کرنے کے لئے مناسب اقدامات تجویز کرے۔ مسلم لیگ کا یہ عمل بنیادی طور پر کسانوں اور جاگیرداروں کے مابین کئی جھڑپوں اور فسادات اور دیہی طبقوں میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے جواب میں تھا۔
جواباً ورکنگ کمیٹی نے 12 اپریل کو دولتانہ کی سربراہی میں ایک زرعی کمیٹی تشکیل دی جس کے ممبران میں بیگم شاہنواز، خان عبدالقیوم خان، قاضی محمد عیسیٰ اور حاجی اکبر شاہ شامل تھے۔ اس کمیٹی نے زرعی شعبے میں اصلاحات کے لئے ایک انقلابی کی بجائے ارتقائی پروگرام کی سفارش کی۔
زرعی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات یہ تھیں:
اؤل یہ کہ ہر خاندان کے لئے حد ملکیت آبپاشی والی زمین کی لئے 150 ایکڑ، نیم آبپاشی والی زمین کے لئے 300 ایکڑ اور غیر سیراب اراضی کے لئے 450 ایکڑ مقرر کی جائے۔
دوم، یہ کہ مقرر کردہ حد ملکیت سے زیادہ والی زمین حکومت کے ذریعہ یا تو آہستہ آہستہ یا ایک اقدام میں (حالات کے لحاظ سے) مالکوں سے حاصل کر لی جائے۔
سوم، یہ کہ اراضی کو ضبط کرنے کے لئے معقول معاوضہ دیا جائے۔
چوتھا، یہ کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس کے ذریعے سے زمینداروں کو بعد میں خریداری یا تحفہ ک ذریعے سے حد ملکیت تجاوز کرنے سے روکا جائے۔
پانچواں نقطہ یہ تھا کہ حد بندی کے ذریعے حاصل کی گئی زمین بے زمین کاشتکاروں، زرعی مزدوروں اور چھوٹے زمینداروں میں تقسیم کی جائے۔
چھٹا نقطہ یہ کہ بے جا ٹیکسوں اور بیگار کو ختم کیا جائے اور ساتویں سفارش یہ تھی کہ بٹائی کے تحت کاشت ہونے والی زمین میں سے مزارع کے حصے کو باقاعدہ بنایا جائے۔
دولتانہ نے وزیراعلیٰ پنجاب بننے پر معتدل اور ارتقائی اصلاحات کا راستہ اختیار کیا۔ کہا جاتا ہے کہ دولتانہ قانون سازوں کے ایک ایسے گروپ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے ستمبر 1951ء میں پنجاب اسمبلی میں اراضی اصلاحات کے لئے معتدل اور ارتقائی اصلاحات کی تجاویز پیش کیں۔
درآنحال یہ کہ یہ معتدل سفارشات تھیں پھر بھی زمیندار اشرافیہ نے پھرتیلا اور پر عزم جواب دیا۔ مثال کے طور پر، ایک اجلاس میں، انسداد اصلاحات گروپ کے فرض شناس رہنما، سید نوبہار شاہ نے ڈرامائی انداز میں اپنی ٹوپی لہرائی اور اعلان کیا کہ جس طرح یہ ٹوپی اس کی اپنی ہے اسی طرح یہ زمین بھی اس کی اپنی ہے۔ نہ تو کوئی اس کی ٹوپی اس سے چھین سکتا ہے اور نہ ہی اس کی زمین۔ اس طرح کے واقعات اور دلائل حتمی بل کے الفاظ میں اہم ترامیم کا باعث بنے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دولتانہ لینڈ ریفارمز کا یہ حتمی بل در حقیقت 1950ء والے پنجاب پروٹیکشن اینڈ ریسٹوریشن آف ٹٰنینسی رائٹس ایکٹ کا ایک ترمیم شدہ ورژن تھا۔
تاہم، ان اصلاحات میں کچھ اضافی شقیں بھی شامل تھیں: مالک مکان کے حصہ کے تناسب میں کاشتکار کا حصہ 50 فیصد سے بڑھا کر 60 فیصد کر دیا گیا، بغیر معاوضہ کے جاگیروں کا خاتمہ کر دیا گیا اور خودکاشت کو باقاعدہ منظم کر دیا گیا۔ ان اصلاحات میں یہ بھی عزم کیا گیا تھا کہ زمین کے محصول کی ادائیگی زمینداروں کی ذمہ داری ہے جبکہ دیگر اخراجات زمیندار اور کسان پربرابر تقسیم ہوں گے۔
ناقدین نے ان اصلاحات کو محض ”کاسمیٹک“ قرار دیا کیونکہ پہلی سفارش میں ملکیت زمین پہ حد بندی والی جو شق داخل کی گئی تھی اسے ختم کرنا پڑا۔ اصلاحات میں یہ تبدیلی، ملکیت زمین پہ حد بندی کی شق کو حذف کروانے میں سب سے زیادہ موثر کردار سید نوبہار شاہ جیسے لوگوں نے ادا کیا۔ زمین کی ملکیت پہ حد بندی کی عدم موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ بنیادی تبدیلی صرف کاشتکاروں کے حصہ کو بڑھانا تھا اورمجموعی طور پر یہ اصلاحات کسی انقلابی یا بڑی تبدیلی کے لئے غیر موثر اور ناکافی تھیں۔
اس کے علاوہ دولتانہ نے مقامی سرکاری عہدیداروں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر دو اہم حکمت عملیوں (انتخابی دھاندلی اور من پسند حلقہ بندیوں) کے ذریعے کسانوں یا مزدوروں کی بجائے اپنے گراں قدر اتحادیوں، زمینداروں، کی فتح کو یقینی بنایا۔ اس بات کے ثبوت اے ایم خان لغاری نے اپنی سرکاری رپورٹ میں درج کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1952ء میں سرگودھا کے ضلعی بورڈکے انتخابات میں دولتانہ کی حکومت نے مخصوص امیدواروں کو الیکشن جتوانے کے لئے مقامی سرکاری عہدیداروں اور بیوروکریٹس کے تعاون سے انتخابی قوانین اور انتخابی حلقوں کی حد بندی میں ترامیم کیں۔
مثال کے طور پر، کچھ خالصتاً شہری یا نیم شہری حلقوں، جہاں رائے دہندگان کی اکثریت دیہی رہائشیوں کی بجائے شہری رہائشیوں کی تھی، کی حد بندی اس طرح کی گئی کہ وہ دیہی، شہری حلقے بن گئے جہاں رائے دہندگان کی اکثریت دیہی رہائشیوں میں بدل گئی۔ اس طرح کے انتخابی حلقوں میں دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اشرافیہ کے انتخاب کو یقینی بنایا گیا تھا۔
دولتانہ کی پالیسیوں اور زرعی اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے کی جانے والی کوششوں پر چوہدری فتح محمد اور شیخ محمد رشید جیسے کسان رہنماؤں نے شدید تنقید کی۔ مثال کے طور پر، انہوں نے الزام لگایا کہ دولتانہ نے اپنی کسان کمیٹی تشکیل دے کر کسانوں کو تقسیم کرکے پنجاب کسان تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثر و رسوخ کو کم یا ختم کرنے کی کوشش کی۔ مزید یہ کہ دولتانہ زرعی اصلاحات کے نعرے کو استعمال کرتے ہوئے بائیں بازو کی جماعتوں کے مقابل آن کھڑے ہوئے۔ ان حکمت عملیوں نے یقینا ًکسانوں کی بجائے زمینداروں کے مفادات کا تحفظ کیا۔
دولتانہ اور دوسرے زمیندار، ممدوٹ اور نون، صرف اپنی ذاتی اہمیت اور اقتدار کے لئے ایک دوسرے کے حریف تھے اور ان کے مابین کسی بھی طرح کا پالیسی اختلاف نہیں تھا۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور جدیدیت کے اقدار اور طریقوں سے مانوسی بھی جاگیردارانہ کلچر میں پرورش پانے والوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے میں کوئی خاطرخواہ یا موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔