خبریں/تبصرے

3 سال میں 33 ارب ڈالر بیرونی قرضے: غیر مستحکم قرضے دیوالیہ پن کا باعث بنیں گے، آئی پی آر

لاہور (جدوجہد رپورٹ) عمران حکومت نے اب تک مجموعی طور پر 33 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے حاصل کئے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز (آئی پی آر) نے خبردار کیا ہے کہ غیر مستحکم قرضہ معیشت کو کم نمو کی حالت میں رکھے گا اور دیوالیہ پن کے قریب لے جائیگا۔

حکومت نے جولائی 2018ء سے مارچ 2021ء تک لئے گئے مجموعی غیر ملکی قرضے پاکستان مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں لئے گئے بیرونی قرضوں کے 78 فیصد کے برابر ہیں۔ آئی پی آر نے مالی سال 2019-20ء تک گزشتہ 20 سالوں میں غیر ملکی قرض لینے کے رجحانات کا تجزیہ کیا ہے۔ ایکسپریس ٹربیون نے غیر ملکی قرض کے اعداد و شمار کو مارچ 2021ء تک بڑھایا ہے تاکہ موجودہ حکومت کے دور کا مکمل طورپر احاطہ کیا جائے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے رواں سال مارچ تک یورو بانڈ سمیت 32.9 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لئے تھے ا ور ان قرضوں میں سے 25 ارب ڈالر یا 76 فیصد قرضوں کی ادائیگیوں، بجٹ سپورٹ اور بیلنس آف پے منٹس کیلئے لئے گئے تھے۔

سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے بیرونی عوامی قرضوں میں 15 ارب ڈالر کا اضافہ کیا، جس کا مطلب ہے کہ باقی قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے استعمال کئے گئے۔ حکومت نے گزشتہ 9 ماہ میں 10.3 ارب ڈالر کے بشمول یورو بانڈز غیر ملکی قرضے لئے، آئی پی آر کے مطابق مسلم لیگ کی حکومت نے پانچ سالوں میں 42.4 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لئے تھے جن میں 27 ارب ڈالر یا 64 فیصد بجٹ سپورٹ کی مد میں قرضے لئے تھے۔ لیگی حکومت نے پانچ سالوں میں تقریباً 24 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے واپس کر دیئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں ہی نے خاطرخواہ بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ناکامی کی وجہ سے بھاری غیر ملکی قرضوں کا سہارا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں حکومتوں نے غیر ملکی قرضے لینے پر ہی انحصار کیا تاکہ وہ دیوالیہ ہونے سے بچ سکیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سود کی شرح سے قطع نظر کسی بھی دستیاب غیر ملکی قرض کیلئے اپنی ترجیحات ختم کرنی چاہئیں اور ملک کو اس کے سرکاری مالیاتی انتظام پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کی معیشت کو درپیش سب سے زیادہ مشکل مسئلہ بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی ہے۔

غیر ملکی قرضہ جب ادائیگیوں کے توازن کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں بجٹ سپورٹ اور ادائیگیوں میں توازن کیلئے حاصل کئے جانے والے قرضے غیر مستحکم سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضوں کے ذریعے شرح نمو میں بڑھوتری کی متھ پاکستان کے معاملہ میں کہیں غائب ہو چکی ہے۔ قرضوں نے مزید قرضوں کے حصول کی ضرورت کو ہی پیدا کیا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں بیرونی قرضوں کی اصل رقم اور سود کی ادائیگی 2014ء میں جی ڈی پی کے 1 فیصد کے برابر تھی جو مالی سال 2020ء میں جی ڈی پی کے 5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

گزشتہ مالی سال میں غیر ملکی قرض دہندگان کو اصل رقم اور سود کی مد میں مجموعی طو ر پر 2.3 ہزار ارب روپے ادا کئے گئے جو وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے ترقیات بجٹ سے دوگنا ہے۔ رپورٹ میں ایک اور سرکاری خیال کو رد کیا ہے کہ بڑے پیمانے کی غیر ملکی امداد مراعات بخش ہے اور عوامی ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے یہ معیشت کیلئے طویل المدتی معاشی فوائد کا باعث ہوتی ہے اور ان کی واپسی کی صلاحیت بھی پیدا کرتی ہے۔ درحقیقت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دوسرے قرض دہندگان سے حاصل کئے جانیوالے بیرونی قرضوں پر ایک تہائی سے 43 فیصد تک سود کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

رپورٹ میں ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کے کردار پر بھی تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ادارے معیشت کیلئے مددگار نہیں تھے، تقریبا ً20 سال پہلے کثیر الجہتی قرض دہندگان نے قرض کے پروگرام میں تبدیلی کی جس کی وجہ سے حکومتوں کو اضافی اخراجات کی شے ملی۔ قرض دہندگان کو اپنے کمزورپروگرام ڈیزائن کا کوئی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی وہ غلطیوں سے سیکھے ہیں۔ اپنے قرضوں کے ڈیزان میں انہوں نے مستقل طور پر پاکستان کی کمزور حکمرانی اور معیشت کی کم صلاحیت کو نظر انداز کیا ہے۔

رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ امداد کاروں کے احکامات پر چلنے کی بجائے اپنی پالیسیاں مرتب کرے تاکہ غیر ملکی قرضوں کے استعمال کیلئے رہنما اصول موجود ہوں اور ان کا استعمال زیادہ تر سرکاری منصوبوں کیلئے کیا جائے جو نجی شعبے کی پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافے کو فروغ دیتے ہیں۔ ڈومیسٹک سیونگ ریٹس کی شرح میں بھی اضافہ کیا جائے جو جی ڈی پی کے 15 فیصد کے قریب رہتے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts