حارث قدیر
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 3 روز قبل چنیدہ صحافیوں سے 7 گھنٹے طویل ملاقات کو جہاں ’آف دی ریکارڈ‘ کہا جا رہا ہے وہاں آہستہ آہستہ ملاقات میں زیر بحث لائے جانے والے مختلف امور کو بھی میڈیا پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ مختلف صحافیوں کے وی لاگز، سوشل میڈیا پوسٹس اور ’ڈان‘میں شائع ہونیوالی ایک خبر کے مطابق پاکستان کے 30 اینکرپرسنز کی آئی ایس پی آر ہیڈ کوارٹر میں 23 اپریل کو افطار ڈنر پر آرمی چیف کے ساتھ ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات 7 گھنٹے تک چلتی رہی۔ ملاقات میں مختلف امور زیر بحث آئے اور آرمی چیف نے صحافیوں کو سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ تاہم ان تمام باتوں کو آف دی ریکارڈ قرار دیتے ہوئے آرمی چیف نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ اگر اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو رپورٹ کیا گیا تو وہ اسکی تردید کر دیں گے۔
یہ غیر رسمی ملاقات 2 روز ہی خفیہ رکھی گئی اور آہستہ آہستہ اس ملاقات سے متعلق خبریں منظر عام پر آنا شروع ہو گئیں۔ صحافی اسد علی طور، رؤف کلاسرا کے علاوہ دیگر صحافیوں نے اس ملاقات پر اپنے ’وی لاگز‘ میں معلومات دیں اور تبصرے بھی کئے۔ اس کے علاوہ مختلف سوشل میڈیا ذرائع اور ’واٹس ایپ لیکس‘ کے ذریعے بھی ملاقات میں ہونے والی بات چیت کو باہر لایا جا رہا ہے۔
مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق اس غیر رسمی ملاقات میں پاک بھارت بیک چینل مذاکرات، افغان امن عمل، پاکستان کی داخلی سیاست سمیت میڈیا کے رول اور فوج پر ہونیوالی مختلف نوعیت کی تنقید پر بات کی گئی۔ آرمی چیف کی طرف سے پاک بھارت بیک چینل مذاکرات کی تصدیق کی گئی اور کہا گیا کہ یہ مذاکرات دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کے سربراہان کے مابین ہو رہے ہیں۔ مذاکرات بھارت کی خواہش پر ہو رہے ہیں اور سول کی بجائے ملٹری لیڈرشپ کے درمیان مذاکرات کی خواہش بھی بھارت ہی کی تھی۔ آرمی چیف نے یہ بھی بتایا کہ بھارت یہ چاہتا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ دیگر ایشوز پر بھی ساتھ ہی بات چیت کی جائے لیکن پاکستان مسئلہ کشمیر کو ترجیح دیتا تھا۔ اب بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام امور پر بات چیت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر ایل او سی پر جنگ بندی اور ٹریڈ کے آغازپر بات ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے ٹریڈ کے آغاز کی کابینہ نے منظوری نہیں دی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی رکاوٹ بنے، جس کی وجہ سے مذاکرات پر منفی اثر پڑا لیکن امید ہے جلد ٹریڈکا آغاز ہو جائے گا۔
آرمی چیف نے یہ بھی تصدیق کی کہ آرٹیکل 370 پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، البتہ 35 اے کی بحالی ہمارا مطالبہ ہے، اس کی وجہ سے کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کی جا رہی ہے، امید ہے جلد 35 اے کو بحال کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سرکریک سے متعلق بھی جلد کچھ ڈویلپمنٹ ہو سکتی ہے۔ انکے مطابق بھارت چین کے ساتھ تنازعات کی وجہ سے ایل او سی پر تنازعہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اب بھارت کا اولین دشمن نہیں ہے اور پاکستان کو بھی اب معیشت کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ جنگ اب آپشن نہیں رہا، روایتی جنگ بھی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے، اس لئے صرف مذاکرات اور بات چیت ہی امن عمل کو آگے بڑھانے کا واحد حل ہے۔ بات چیت چلتی رہے تو مسئلہ کشمیر بھی حل ہو ہی جائیگا۔ عسکریت پسندی کو ترک کرنے پر بھی زور دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ اب ہمارے اثاثوں سے زیادہ بوجھ بن چکے ہیں، یہ ہمارے کنٹرول سے نکل چکے ہیں۔
افغانستان پر معاملات طے پا جانے کا اشارہ بھی دیا گیا اور بتایا گیا کہ طالبان کے ساتھ ملکر براڈر حکومت بنائی جائیگی جو کچھ عرصے میں رولز بنا کر الیکشن کروائیگی اور امید ہے کہ پر امن طور پر یہ معاملات طے ہو جائیں گے۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کو شکست نہیں ہوئی اور توقع ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے اس معاملے کو حل کریں گے۔ افغانستان میں دوبارہ جنگی صورتحال اس خطے کیلئے نقصان دہ ہو گی۔
مسنگ پرسنز پر زیادہ بات چیت کرنے پر صحافیوں سے ناگواری کا اظہارکیا گیا اور فوجی اہلکاروں کی شہادتوں، انکے حقوق اور انکے اجڑتے گھروں کی طرف توجہ دلائی گئی۔ تحریک لبیک پاکستان کو دوبارہ قومی دھارے میں لائے جانے کی تصدیق کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ اب وہ امن سے سیاست کرینگے۔
وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے کہا گیا کہ انہیں ہلکا نہ لیا جائے، وہ پورے سیاستدان ہیں اور فوج کی جانب سے انہیں چلائے جانے کا تاثر رد کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر فوج زبردستی فیصلے کروا رہی ہوتی تو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تبدیل نہ کروا لیتے۔ فوج عمران خان یا نواز شریف وغیرہ کی منشا سے کام کرتی ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی برطانیہ میں موجودگی کے حوالے سے برطانیہ پر بھی تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ آئین اور قانون کی پاسداری کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن نوازشریف کے کیس میں انہوں نے استثنیٰ نکالا ہوا ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ نواز شریف حکومت سے متعلق کہا گیا کہ وہ اپنے بوجھ سے گری ہے۔ فوج نواز شریف کی حکومت کے بھی ساتھ تھی اور عمران خان کی حکومت کے بھی ساتھ ہے۔ ایم این اے علی وزیر سے متعلق بھی کہا گیا کہ انہوں نے کسی بس سٹینڈ پر قبضہ کیا ہے اور اس جرم میں انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ جہاں مختلف صحافی یہ بات کر رہے ہیں کہ بہت ’فرینک‘ ماحول میں یہ گفتگو ہو رہی تھی وہاں یہ پوچھنے کی کسی کو جرأت نہ ہو سکی کہ علی وزیر کراچی میں ایک جلسے میں تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار ہیں اور ان کی درخواست ضمانت پر سماعت مکمل ہوئے ایک مہینہ 20 روز گزر چکے ہیں اور فیصلہ نہیں سنایا جا رہا۔ آرمی چیف نے بس اسٹینڈ پر قبضے کے کیس والی بات کہی اور سوال غائب ہو گیا۔
سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم پر حملے میں خفیہ اداروں یا فورسز کے ملوث ہونے کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ فوج پر اس سے زیادہ تنقید پر بھی کوئی رد عمل نہیں دیا گیا۔ آرمی کسی ایک بندے کے ٹویٹ سے نہیں ڈرتی، فورسز کو ملزمان کی تلاش کا کہا گیا ہے۔
اندرونی اطلاعات کے مطابق آرمی چیف نے اینکر پرسنز کو ان کی جانب سے مختلف پروگرامات میں کی گئی باتوں سے متعلق نشاندہی کر کے بتایا کہ انہوں نے قومی مفاد پر کمپرومائز کیا ہے۔ قومی مفاد کی چیزوں کو دیکھنے کی ہدایت کی گئی اور جہاں مہمان جھوٹ بول رہے ہوں اسکی موقع پر وضاحت کرنے کی ہدایت بھی دی گئی۔
رؤف کلاسرا کے مطابق آرمی چیف کی جانب سے اپنی مستقبل کی زندگی کی تین خواہشات بھی بتائی گئیں۔ پہلی خواہش پاکستان کو ماضی کی طرح ایک نارمل ملک بنانے کی، دوسری وقت پر ریٹائرمنٹ لینے کی اور تیسری خواہش پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلنے کی ظاہر کی گئی۔
یہ بھی بتایا گیا کہ ماضی میں جس قدر میڈیا پر دباؤ ڈالا جاتا تھا اس طرح سختی نہیں کی، کسی کو گولیاں نہیں ماریں، کسی کو قتل نہیں کروایا، کسی کو دھمکی نہیں دی، ہمارے خلاف جھوٹ بولا جا رہا ہے اور ہم درگزر کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اینکر پرسنز کے افطار ڈنر پر آئی ایس پی آر ہیڈ کوارٹر جانے سے ایک روز قبل کورونا ٹیسٹ کروائے گئے اور 2 صحافیوں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے وہ اس افطار ڈنر میں شرکت نہیں کر سکے۔
آرمی چیف کے ساتھ صحافیوں کی ملاقات میں ہونے والی غیر رسمی گفتگو کو آہستہ آہستہ منظر عام پر لائے جانے کا قطعاً مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تمام گفتگو اس لئے کی گئی کہ اس سے بابت عام عوام کو کچھ معلومات فراہم نہ کی جائے بلکہ اس انداز سے گفتگو کو باہر نکالنے کامقصد اسکی اہمیت کو کئی گناہ بڑھانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہی ایسا کیا گیا ہے اور اب اس ملاقات میں زیر بحث لائی جانیوالی باتیں کئی روز تک گردش میں رہیں گی۔
اس ملاقات سے ایک بار پھر یہ ظاہر ہوا ہے کہ پاکستان میں حکومت اور طاقت کا اصل مرکز کہاں ہے۔ خارجی اور داخلی امور میں حکومت کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں اور تمام تر اہم امور کو اس ملک کے طاقتور ترین ادارے کے سربراہان کی طرف سے دیکھا جا رہا ہے۔
اس ملاقات کی باہر آنیوالی معلومات نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ کوئی پہلی حکومت نہیں ہے جو اس طرح سے چلائی جا رہی ہے بلکہ ماضی میں بھی آمریت کے ادوار کے علاوہ کم و بیش اس طرز سے ہی نظام حکومت کو چلایا جاتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت میں کچھ معاملات زیادہ کھل کر واضح ہوئے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ اور تاخیر زدگی کا شکار ملک میں سرمایہ دارانہ نظام حکومت کوچلانے کیلئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں بچا ہوا ہے۔ اس خطے کے محنت کشوں کے مقدر کے فیصلہ سازوں کے مسائل کچھ اور ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ محنت کشوں کے مسائل، دکھوں اور آلام سے لاتعلق اور بے بہرا ہیں۔ اس خطے کے مظلوم اور محکوم انسانوں کی نجات اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔