دنیا

اتحادی فوجوں کا انخلا اور افغانستان میں نئی صف بندیاں: ایک مکالمہ

قیصر عباس

گزشتہ 40 عشروں سے افغانستان دنیاکی دو بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ اور پھر خونی جنگ کا مرکز رہا ہے۔ اس کا آغاز 1979ء میں اس وقت ہوا جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ ایک عرصے تک خون خرابے کے بعد، جس میں افغانیوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی، ملک اقتصادی اور سماجی طور پر تباہی کے کنارے پہنچ گیا اور پھر سوویت یونین کوملک سے نکلنا پڑا۔

نائین الیون کے حملے کے بعد اسی سرزمین پر امریکہ بھی جدید ترین اسلحے سے لیس اپنی فوجوں اور لڑاکا ہوائی جہازوں کے ساتھ داخل ہوا اور پھر خونی جنگ کے ایک اور دور کا آغاز ہوا۔ شمالی اتحاد کے تعاون سے طالبان کو کابل سے تو نکالا گیا لیکن ان کی قوت کم نہیں ہو سکی اور یہ جنگی جنون کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی گیا۔ امریکہ نے ملک کو ایک سیاسی ڈھانچہ دینے کے لئے انتخابات کرائے اور اس طرح ایک قبائلی سماج میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

امریکہ 20 سال کے بعد اب افغانستان سے واپسی کی تیاریوں میں ہے اور امید ہے کہ مجموعی طور پر تقریباً 9,500 امریکی اور اتحادی فوجیں ستمبر تک ملک سے نکل جائیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان اس طویل جنگ میں دونوں فریقین کی نہ جیت ہوئی ہے نہ ہار، لیکن یہ ضرور ہے کہ ملک کے تقریباً نصف حصے پر اب بھی طالبان کا اثر و رسوخ قائم ہے۔

بدقسمتی سے ان خوں ریز معرکوں کی ابتدا روس اور امریکہ سے ہوئی جس میں افغانستان کے غریب عوام اور ان کے ملک کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس تباہی کے تمام نتائج ان ہی کو بھگتنا پڑے۔ ان طویل جنگوں کا آغاز اور انجام ان ہی دونوں عالمی طاقتوں کے ہاتھوں ہوا اگرچہ اس کھیل میں ملک کے امرا، طاقتور قبائلی سردار اور جنگجو بھی بعد میں شامل ہو گئے۔

طالبان اور امریکہ کی اس جنگ میں امریکہ کے تقریباً 2,000 فوجی ہلاک ہوئے لیکن افغانیوں کی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق 38,000 سے زیادہ عام افغانیوں نے اپنی جان دی۔ افغانستان کے سرکاری ذرائع کے مطابق پچھلے سات سالوں کے دوران سیکورٹی فورس کے 48,000 ارکان بھی ہلاک ہوئے۔

کچھ تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی افغانیوں کی مشکلات میں کمی کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ ان کے مطابق اگر دونوں فریقین کے درمیان معاہدے کو جلد آخری شکل نہ دی گئی توطالبان اور افغان سیکورٹی فورس کے درمیان کشیدگی بڑھ بھی سکتی ہے۔

زیر بحث معاہدے کے مطابق طالبان ملک کے جمہوری نظام میں اس شرط پر شریک ہونے کے لئے تیار ہیں کہ ریاست میں شرعی قوانین نافذ کئے جائیں۔ دونوں جانب سے معاہدے پر دستخط ابھی باقی ہیں لیکن اس سے پہلے طالبان کا یہ مطالبہ کہ اتحادی فوجیں اپنے وعدے کے مطابق مئی کے آخر تک ملک سے نکل جائیں مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

امریکہ میں جنوبی ایشیا کے ماہر اسفندیار علی بھی ان محققین میں شامل ہیں جن کے نزدیک آنے والا مستقبل افغانستان کے لئے آسان نہیں ہو گا۔ یونیورسٹی آف شکاگو سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے بعد وہ آج کل سٹنفورڈ یونیورسٹی، کیلی فورنیا میں پوسٹ ڈاکڑیٹ ٹیچنگ فیلوشپ کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں علاقائی تحفظ، دہشت گردی کے انسداد پر امریکی پالیسی کے علاوہ افغانستان، پاکستان اور انڈیا سے متعلق امریکی پالیسیاں ان کی ریسرچ کے اہم موضوعات ہیں۔

ان کے تحقیقی مضامین سیکورٹی سڈیز، انٹرنیشنل سٹڈیز کواٹرلی اور دوسرے جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ واشنگٹن پوسٹ اور فارن افیئرز سمیت کئی دیگر اخباروں اور میڈیا میں ان کے تبصرے شامل رہتے ہیں۔

درج ذیل انٹرویو میں اسفندیار علی نے موجودہ حالات کے پس منظرمیں افغانستان کے اہم مسائل پر تبصرہ کیا ہے جن میں افغانستان میں قیام امن کے امکانات، علاقائی مداخلت، اندرونی کشیدگی اور اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکہ کا تعاون جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

کیا آپ کے خیال میں اس سال ستمبر میں امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن اور ترقی کے دروازے کھل جائیں گے؟

صدر بائیڈن کے اس فیصلے سے افغانستان میں سیاسی افتراتفری مزید بڑھ سکتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر تو افغان حکومت پر پڑے گا جو اب تک امریکہ کی مالی، سیاسی اور فوجی امداد کے ذریعے طالبان کا مقابلہ کر رہی تھی۔ آئندہ چند مہینوں میں امریکی انخلا کے بعد افغان حکومت کی سیاسی بنیادیں کمزور ہو سکتی ہیں۔

موجودہ حالات میں افغانستان کی حکومت کو کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں بدعنوانی اور کمزور انتظامیہ کے مسائل بہت اہم ہیں۔ ملک کے تین اہم رہنماؤں، اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر کارزائی کے درمیان حکومت کے ڈھانچے اور طالبان سے متعلق آئندہ کی حکمت عملی پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ امریکہ کے جانے کے بعد اندرونی گروہ بندی اور ان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی جس سے طالبان کو فوجی اور سیاسی طور پر فائدہ حاصل ہو گا۔

ایک اور اہم مسئلہ ملک کے جہادی گروہوں کا مستقبل ہے۔ دوحہ میں 2020ء کے معاہدے کے تحت طالبان پر القاعدہ کی دہشت گردی ختم کرنے کی ذمہ داری عائدکی گئی تھی اور ان سے روابط ختم کرنے کی شرط بھی لگائی گئی تھی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس جنگ کا آغاز بھی اسی لیے ہوا تھا کہ ملک میں القاعدہ کو پناہ دی گئی تھی جس نے نائین الیون کے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

میرے خیال میں دونوں گروہوں کے درمیان ربط اور تعاون امریکی انخلا کے بعد پھر بحال ہو سکتا ہے۔ افغان انتظامیہ بھی یہی سمجھتی ہے کہ ان دونوں گروہوں کے درمیان تعاون ختم کرنا ناممکن ہے۔ اس پس منظر میں یہ اندیشہ کہ دہشت گرد ملک میں پھر فعال ہو سکتے ہیں بے بنیاد نہیں ہے۔

اعلان کے مطابق اگرچہ غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی لیکن امریکہ ملکی استحکام کے لئے افغانستان سے تعاون جاری رکھے گا۔ کیا آپ اسے افغانستان میں امن کے قیام کے لئے ایک خوش آئندا قدام سمجھتے ہیں؟

امریکی منصوبے کے مطابق افغانستان کے ساتھ فوجی اور مالی تعاون ملک سے فوجی انخلا کے بعد بھی جار ی رکھا جائے گا۔ لیکن عام خیال یہی ہے کہ کچھ عرصے کے بعد امریکی امداد ختم ہو سکتی ہے کیوں کہ تاریخی اعتبار سے دیکھا گیا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد علاقے میں کانگریس کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے اور بیرونی مالی امداد کی منظوری اتنی آسان نہیں رہتی۔ اگر یہ امداد جاری بھی رہے تو ملک کی سیاسی لیڈر شپ میں شدید قسم کے سیاسی اختلافات موجود ہیں جس سے طالبان کو فائدہ ہو گا۔

عملی طور پر افغانستان کے تقریباً نصف رقبے پر طالبان کا اثر و رسوخ قائم ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں امریکی فوج کی واپسی کے بعد بھی وہ ملکی استحکام کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

گزشتہ سال دوحہ معاہدے کے تحت سابق صدر ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر 8,600 فوجی افغانستان سے واپس بلا لئے تھے جس کے بعد طالبان نے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اہم فتوحات حاصل کیں تھیں۔ یہ کامیابیاں برقرار رکھنے کے لئے طالبان حکومت پر اپنا دباؤ جاری رکھیں گے۔

آج کل جاری مذاکرات کے دوران امریکہ اور بین الاقوامی فریقین طالبان پر اپنا اثر رکھ سکتے ہیں تاکہ انہیں بڑے صوبائی مرکزوں پر حملوں سے باز رکھ سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ یہ دباؤ اپنی فوجوں کی واپسی کے بعدکب تک جاری رکھ سکے گا؟ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا امریکہ کے لئے بہت مشکل ہو گا اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ عام تاثر یہی ہے کہ افغان سیکورٹی فورس اور طالبان کے درمیان کشیدگی اور بڑھے گی۔

معاہدے کے مطابق طالبان افغانستان کے جمہوری نظام کا حصہ صرف اس شرط پر بنیں گے کہ ملک کو اسلامی ریاست قرار دیا جائے۔ طالبان اگر اس نئے نظام کا حصہ بنے تو ملک میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور انصاف کی فراہمی کہاں تک ممکن ہو سکے گی؟

طالبان نائین الیون سے پہلے کے اسلامی نظام کو پھر رائج کرنا چاہتے ہیں جسے انہوں نے اپنے دور میں نافذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ آج کے عالمی حالات سے بخوبی واقف ہیں اور سیاسی تقاضوں کو بہتر سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ جمہو ری نظام، انتخابات، انسانی حقوق، خصوصی طور پر خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے خلاف ہیں۔ ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ طالبان ان مخالفین سے بدلا لینا چاہتے ہیں جنہوں نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔

کچھ لوگوں کے خیال میں افغانستان میں ترقی اور امن کے لئے صرف بیرونی فوجوں کی واپسی ہی کافی نہیں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں پاکستان، انڈیا، چین، ایران، روس اور سعودی عرب سمیت علاقائی طاقتوں کی عدم مداخلت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ کس حد تک درست ہے؟

یہ بات درست ہے کہ علاقائی طاقتوں کی مداخلت نے افغانستان کے مسائل کو اور سنگین بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا کردار بھی منفی رہا ہے اور اس نے طالبان کو پناہ دے کر انڈیا کا اثر کم کرنے کے بہانے کشیدگی کو مزید ہوا دی ہے۔ ایران نے بھی طالبان اور دوسرے مسلح گروہوں کی سیاسی اور عملی امداد کے ذریعے ملک میں مداخلت جاری رکھی۔

روس، سعودی عرب اور انڈیا نے بھی افغانی متصادم گروہوں کی کشیدگی کو بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب کوئی آثار بھی نہیں ہیں کہ بیرونی مداخلت جلد ختم ہو جائے گی۔ اسے امریکہ کی سب سے بڑی کمزوری کہا جائے گا کہ وہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران اس مداخلت کو روکنے اور مسائل کے حل کے لئے مشترکہ عالمی لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔

امریکہ نے افغانستان کی سیکورٹی فورس کے قیام اور تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی واپسی کے بعد یہ فورس طالبان کا مقابلہ کر نے کے لئے پوری طرح تیار ہے؟

افغان سیکورٹی فورس میں کئی قابل ذکر کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ادارے میں اعلیٰ سطح پر غلط لوگوں کی تعیناتی پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور ملازمین کی ایک بڑی تعداد ادارے کو خیر باد کہہ رہی ہے۔ اس کے باوجود ادارے کے کچھ شعبے کارکردگی کے لحاظ سے بہتر ہیں خصوصی طور پر افغان سپیشل آپریشن فورسز جس کو حال ہی میں امریکہ نے مزید بااختیار بنا کر اس کے انتظامی امور میں اپنا عمل دخل کم کر دیا ہے۔

ملک کے مشرقی حصے میں بھی ملیشیا فورسز نے دہشت گردی کے خلاف اہم کردار ادا کیا ہے لیکن امریکہ کے جانے کے بعدملک کاسیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو گاجس کا اثر سیکورٹی فورسز پر بھی پڑے گا اور ہو سکتا ہے یہ ادارہ اپنی موجودہ شکل میں نہ رہے اوربکھر جائے۔

پاکستان اور افغانستان مل کر وسط ایشیا کے ملکوں سے تیل اور گیس کی بحرہ عرب تک رسائی کا راستہ فراہم کر سکتے ہیں جس سے علاقے کی اقتصادی ترقی کو فروغ حاصل ہو گا۔ آنے والے دنوں میں یہ کہاں تک ممکن ہے؟

کسی بھی علاقائی اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان میں پہلے امن قائم کیا جائے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مستقبل قریب میں امن کے امکانات کم ہیں۔ طالبان کے ماضی کے رویوں کو دیکھ کر اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ ملک کے کچھ حصوں پر اپنا تسلط قائم کر لیتے ہیں تو اس صورت حال میں یہ ضروری نہیں کہ وہ حقیقت پسندانہ روش اختیار کرتے ہوئے افغانستان کواقتصادی تعان کے مرکز میں تبدیل کر دیں۔

جنوبی ایشیا کے ماہر ہونے کی حیثیت سے آپ کے نزدیک وہ کیاحکمت عملی ہے جس کے ذریعے افغانستان میں استحکام اور ترقی کے امکانات ہو سکتے ہیں؟

سب سے پہلے تو عالمی طاقتوں کو افغانستان میں امن کے لئے اندرونی اور بیرونی فریقوں کو امن و استحکام کے لئے متحد کرنا ہو گا۔ انخلا کے بعد بھی امریکہ خطے میں امن کے قیام کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ طالبان کو جو میدان جنگ میں اب تک زیادہ سرگرم اور عام طورپر سخت گیر رویے کے پیروکار نظر آتے ہیں اب امن اور استحکام کے لئے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔

اس سلسلے میں چین، روس اور امریکہ کی مشترکہ کوششیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ملک کی مختلف سیاسی اور سماجی اکائیوں کو ملکی مفادات کے لئے ایک ہو کر کام کرنا ہو گا اور آخری بات یہ کہ افغانستان کے پڑوسی ملکوں، خصوصاً پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان کی اندرونی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے طالبان کی مدد کریں۔ یہی نئی حکمت عملی کے وہ پہلو ہیں جو افغانستان میں دیرپا امن کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔