دنیا

افغانستان کی کوریج: بی بی سی اردو اور اے آر وائی میں کوئی فرق نہیں!

فاروق سلہریا

بی بی سی اردو کے ساتھ پاکستان کے شہریوں کا ایک تاریخی تعلق ہے۔ پاکستان میں میڈیا ہمیشہ سنسر شپ کا شکار رہاہے لہٰذا درست معلومات کی تلاش میں پاکستان کے لوگ بی بی سی اردو سنتے تھے۔ نجی ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ کی آمد سے قبل نوے کی دہائی تک بڑے اخبارات میں مانیٹرنگ ڈیسک ہوتے تھے جہاں بی بی سی اردو کو مانیٹر کیا جاتا اور بی بی سی اردو کی خبروں کو نمایاں کوریج دی جاتی تھی۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بہت سی خبریں بی بی سی کے بہانے چلا دی جاتیں تا کہ سرکار کو یہ جھانسا دیا جا سکے کہ خبر بی بی سی نے دی ہے نہ کہ ہم نے۔ بی بی سی اردو کی مقبولیت کی ایک وجہ معیاری صحافت بھی تھی۔ زبان و بیان کا خیال بھی رکھا جاتا تھا۔بی بی سی اردو ایک طرح سے پاکستان کے گھٹن زدہ ماحول، جس کی علامت نوائے وقت اور پی ٹی وی تھے،سے فرار کا نام تھا۔

آج بھی بلوچستان، سابقہ فاٹا یا دیگر محکوم پرتوں کی خبریں بی بی سی کے معروف پروگرام ”سیر بین“ کے آخر میں ایک دو منٹ چلا دی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا میں شجرِ ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوعات پر بھی بعض اوقات بات ہوتی ہے۔ ہاں مگر رفتہ رفتہ بی بی سی اردو اور اے آر وائی میں فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ صحافت کا معیار تو گر ہی رہا ہے‘ رفتہ رفتہ بی بی سی اردو اور پاکستان کے سرکاری بیانیے میں بھی فرق مٹ رہا ہے۔

مندجہ بالا طویل تمہید کا مقصد یہ عرض کرنا تھا کہ کم از کم دو موضوعات‘ افغانستان اور کشمیر پر بی بی سی اردو اور پاکستان کے نجی چینلوں کے بیانیے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں البتہ صرف افغانستان کے حوالے سے مثالیں پیش کی جائیں گی کیونکہ افغان صدر اشرف غنی پاکستان کے دورے پر ہیں اور مندرجہ ذیل تجزیہ‘ میڈیا کا کردار سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ذیل میں دئیے گئے شواہد راقم نے پچھلے ایک سال میں مانیٹر کئے ہیں۔ ہر مثال کے ساتھ کوریج کو ٹوئسٹ(Twist) دینے کے طریقہ کار کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔

23 اپریل 2018ء

کابل میں بی بی سی اردو کے نمائندے نے ملک کے مختلف حصوں میں افغان پولیس پر ہونے والے حملوں کی خبر دی۔ خبر پر تبصرے کے لئے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز سے منسلک سمبل خان سے ماہرانہ رائے مانگی گئی۔ جب سمبل خان سے افغانستان میں پاکستانی مداخلت کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے بڑی چالاکی سے اس ”الزام“ کی تردید کی۔ سمبل خان کئی بار بی بی سی اردو پر افغانستان پر رائے دینے کے لئے بلائی جا چکی ہیں۔

مندرجہ بالا مثال میں بی بی سی کی کوریج میں جو چالاکی برتی گئی عموماً افغانستان کے حوالے سے یہ طریقہ کار برتا جاتا ہے۔ دیکھئے کہ واقعے کی کوریج ایک افغان نے اردو زبان میں کی مگر ”ماہرانہ“ رائے ایک پاکستانی سے لی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کی سطح تک کے نمائندے افغانستان میں پاکستانی مداخلت سے انکار نہیں کرتے مگر سمبل خان اس الزام کی نفی کرتے ہوئے پائی گئیں۔ یہی طریقہ کار عموماً استعمال کیا جاتا ہے۔ واقعہ کی کوریج کابل سے کی جائے گی مگر ماہرانہ رائے سمبل خان، رحیم اللہ یوسف زئی (جن کی طالبان دوستی کسی تعارف کی محتاج نہیں) یا کسی فوجی افسر سے لی جائے گی۔

ناقد یہ اعتراض اٹھا سکتا ہے کہ بی بی سی اردو چونکہ اردو کی سروس ہے لہٰذا کسی افغان سے رائے لینا ممکن نہیں کیونکہ وہاں کی بڑی زبانیں دری اور پشتو ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی اعتراض انتہائی بودا ہو گا۔ اول تو یہ کہ جیسا اوپر بتایا گیا ہے واقعہ کی کوریج عموماًکابل سے ایک افغان ہی کر رہا ہوتا ہے۔ دوم بی بی سی پشتو میں کام کرنے والے بعض اہل کار اردو بول سکتے ہیں (بی بی سی اردو میں کام کرنے والے بھی ان سے ملتے ہیں اور سب ایک ہی عمارت میں کام کرتے ہیں)۔

کبھی کبھار پشتو سروس میں کام کرنے والے افغان اہلکاروں کو مدعو بھی کیا جاتا ہے اور وہ ناقدانہ، نپاتلا اور معلومات سے بھر پور تجزیہ کرتے ہیں جو عموماً اسلام آباد یا پشاور میں بیٹھے کسی بھی خان، یوسف زئی یا ریٹائرڈ افسر سے بہتر ہوتا ہے لیکن ایسا زیادہ ترنہیں کیا جاتا۔ مزید یہ کہ ایسے بے شمار افراد بالخصوص صحافی آپ کو پورے افغانستان میں مل جائیں گے جو اردو بول سکتے ہیں۔ راقم کئی بار کابل جا چکا ہے اور کابل سے رپورٹنگ کرتا رہا ہے۔ کابل میں دری اور پشتو کے علاوہ اگر کسی زبان میں آپ باآسانی بات چیت کر سکتے ہیں تو وہ اردو زبان ہے۔ قصہ مختصر‘ زبان کا بہانہ بالکل بودا ہو گا اور بی بی سی اردو والوں کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے۔

30 اپریل 2018 ء

کابل میں ہونے والے ایک بم دھماکے کی کابل سے بی بی سی کے نمائندے نے رپورٹ دی۔گزشتہ مثال کی طرح واقعہ کی کوریج کابل سے کی گئی مگر ماہرانہ رائے رحیم اللہ یوسف زئی سے لی گئی۔ انکی طالبان دوستی انکے صحافتی ریکارڈ سے ہی نہیں جھلکتی بلکہ جب نواز شریف کی گزشتہ حکومت نے طالبان سے مذاکرات کا ڈھونگ رچانے کی کوشش کی تو حکومتی مذاکراتی ٹیم میں رحیم اللہ یوسف زئی بھی طالبان کی رضامندی سے شامل ہوئے تھے۔

دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے یوسف زئی نے مذکورہ بم دھماکے پر تبصرہ کرتے ہوئے افغانستان میں جاری جنگ کی ذمہ داری طالبان کے علاوہ داعش اور افغان حکومت پر بھی ڈال دی۔ انہوں نے کہا تینوں یکساں ذمہ دار ہیں کیونکہ امن کے لئے ان میں سے کوئی بھی کوشاں نہیں۔ افغانستان کی بربادی کی ذمہ داری یقینا امریکہ کی جارحیت کی وجہ سے اس کی کٹھ پتلی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن یہاں رحیم اللہ یوسفزئی کا مقصد الزام کو دوسری طرف منتقل کر کے طالبان کو بری الذمہ ٹھہرانا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے کئی پاکستانی صحافیوں نے ایسے ایسے جواز گھڑلیے ہیں کہ ملاں عمر بھی نہ گھڑ سکتا تھا۔ افغانستان کے حالات سے واقف کوئی شخص بھی مندرجہ بالا رائے کیسے دے سکتا ہے؟ اس کا جواب صرف بی بی سی اردو ہی دے سکتی ہے۔

17جون 2018ء

عید کے موقع پر افغانستان میں ہونے والے سیز فائر کو سیر بین کا ایک اہم موضوع بنا کر طویل کوریج کی گئی۔ ماہرانہ رائے کے لئے ایک بار پھرسمبل خان صاحبہ کو مدعو کیا گیا۔ بلا شبہ سمبل خان صاحبہ کے پاس افغانستان بارے اچھی معلومات تھیں مگر انتہائی چالاکی سے وہ پاکستانی ریاست کا مدعا بیان کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سیز فائر اور افغانستان میں ممکنہ امن کے لئے کریڈٹ جنرل قمر باجوہ کو جاتا ہے۔ گزشتہ مثال میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو مداخلت کے الزام سے بری کر چکی ہیں۔ اب یہ معمہ وہی حل کر سکتی ہیں کہ اگر پاکستان کی مداخلت موجود نہیں تو افغان امن کے لئے جنرل باجوہ کا شکریہ ادا کرنا کیوں ضروری ہے؟ کیا بی بی سی اردو میں کسی نے اس تضاد کا کبھی تجزیہ کیا؟

10 جنوری 2019ء

اس سال دس جنوری کے سیر بین میں یہ خبر دی گئی کہ بھارتی فوج کے سربراہ نے طالبان سے ہونے والے امن مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ خبر دہلی سے بی بی سی کے نمائندے نے رپورٹ کی۔ اس خبر پر تبصرے کے لئے (ہوشیار! خبردار! با ملاحظہ!) ”ڈاکٹر“ ماریہ سلطان کو ماہرانہ رائے کے لئے بلایا گیا۔ چلیں افغان تو بے چارے اردو بولنے کے علاوہ بی بی سی اردو کے معیار کے مطابق ماہرانہ رائے دینے کی عقل اور صلاحیت بھی شاید نہ رکھتے ہوں مگر کیا مودی جی کے شائنگ انڈیا میں بھی بی بی سی اردو کو ایک شخص بھی نہ مل سکا جو ہند افغان تعلقات پر رائے دے سکے۔ چلیں یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ ”ڈاکٹر“ ماریہ سلطان ہند افغان تعلقات کے پاکستان پر اثرات کی بات کریں مگر ہند افغان تعلقات پر کسی افغان یا بھارتی ماہر سے بات نہ کرنا صرف بی بی سی اردو کا ہی صحافتی معیار ہو سکتا ہے۔

مندرجہ بالا مثالیں فقط چند نمونے ہیں جو ایک پیٹرن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان مثالوں کو آپ استثنائی صورتیں نہیں کہہ سکتے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ بی بی سی اردو میں ایسی کوریج کیوں ہو رہی ہے۔ حتمی جواب تو خود بی بی سی والے ہی دے سکتے ہیں مگر راقم کی بی بی سی کے اہل کاروں سے ہونے والی غیر رسمی بات چیت سے دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ اول بی بی سی اردو میں اکثریت ان افراد کی ہے جن کا نظریاتی افق مطالعہ پاکستان تک محدود ہے۔ دوم بی بی سی اردو بھی ویسے ہی دباؤ کا شکار ہے جس کا سامنا باقی میڈیا اداروں کو ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔