لاہور (جدوجہد رپورٹ) کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے مقامی دیہاتوں پر غیر قانونی قبضے چھڑوانے کیلئے سندھی قوم پرست اور ترقی پسند تنظیموں کے اتحاد ’سندھ ایکشن کمیٹی‘ کے زیر اہتمام منعقدہ احتجاج اور دھرنے کے دوران ہنگامی آرائی کے نتیجے میں 2 فاسٹ فوڈ فرنچائزز، متعدد گاڑیاں، ایک شوروم اور اسٹیٹ ایجنٹوں کے 2 دفاتر نذر آتش ہو گئے۔ کراچی پولیس نے ہنگامہ آرائی کے الزام میں 80 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
مظاہرین نے ہنگامہ آرائی میں ’سندھ ایکشن کمیٹی‘ کے ملوث ہونے کی تردید کر دی تھی اور احتجاج کو ختم کرنے کیلئے پولیس تشدد، آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں فائر کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہنگامہ آرائی منصوبہ بندی کے تحت کروائی گئی تاکہ احتجاج کو ختم کیا جا سکے۔ قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان میں ان کے کارکنان بھی شامل ہیں۔ سندھ ایکشن کمیٹی نے 9 جون کو سندھ بھر میں احتجاج اور سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔
اتوار کے روز سندھ کے مختلف حصوں سے ہزاروں افراد دیہی زمینوں پر قبضے اور مقامی لوگوں کو زبردستی بے دخل کئے جانے کے خلاف پر امن احتجاج کیلئے بحریہ ٹاؤن کے سامنے جمع ہوئے اور وہاں دھرنا شروع کیا گیا۔ ڈان کے مطابق پولیس نے اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔
سندھ ایکشن کمیٹی نے بحریہ ٹاؤن کے مرکزی گیٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا تھا، پولیس نے مظاہرین کو گیٹ کے قریب جانے سے روکنے کیلئے سڑکوں پر عارضی رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ پولیس نے جب گاڑیوں کے قافلوں کو روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے شاہراہ پر دھرنا دے دیا جس سے ٹریفک کی آمدو رفت متاثر ہوئی۔
ڈان کے مطابق مظاہرین نے رکاٹیں ہٹانا شروع کیں اور مرکزی گیٹ پر پہنچ کر دھرنا دے دیا۔ تاہم صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب ایک ہجوم مرکزی دروازے سے اندر داخل ہو گیا اور املاک کو آگ لگا دی۔ توڑ پھوڑ کی دیگر کارروائیوں میں دفاتر کے شیشے توڑے گئے اور ایک بینک اور ایک اے ٹی ایم کو بھی لوٹ لیا گیا۔
پولیس نے شرکا دھرنا کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس، واٹر کینن، ربڑ کی گولیاں، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے، خواتین اور بچے بے ہوش ہو گئے، جبکہ متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔
سندھ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ ”تشدد میں ملوث لوگوں کا ان ایکشن کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایکشن کمیٹی اس تشدد میں ملوث نہیں ہے۔ شر پسندوں نے پر امن جدوجہد کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی۔“
ڈاکٹر قادر مگسی نے بھی میڈیا کو بتایا کہ ”آتش گیر حملوں کیلئے کیمیائی استعمال کا امکان موجود ہے اور وہ عناصر ملوث ہیں جو ماضی میں کراچی میں ہونے والے پرتشدد واقعات کیلئے کیمیکل استعمال کرنے کیلئے جانے جاتے ہیں۔“
ان رہنماؤں نے سندھ کی زمینوں کے تحفظ میں ناکام ہونے پر حکومت سے برطرفی کا مطالبہ کیا اور بحریہ ٹاؤن کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیاہے۔ انہوں نے کہا کہ موٹر وے پر میگا ہاؤسنگ منصوبوں کا مقصد صوبے میں آبادیاتی تبدیلی لانا ہے، جس کا مقصد سندھیوں کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ یہ دولت مند کاروباری افراد کے ذریعے سندھ کی نوآبادیات ہے جسے ہم مسترد کر تے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ”سندھ کے عوام اپنی زمینوں کے حقدار مالک ہیں، وہ اپنی زمینیں واپس چاہتے ہیں، وہ اپنے دریاؤں کی واپسی چاہتے ہیں۔“
سندھ ایکشن کمیٹی کی قیادت نے پریسکانفرنس کرتے ہوئے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف 9 جون کو وسیع احتجاج اور سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
دوسری طرف سندھ حکومت، وفاقی حکومت کے نمائندگان بالخصوص گورنر سندھ کی جانب سے جاری بیانات میں مظاہرین کو امن تباہ کرنے والے قرار دیا گیا ہے، جبکہ بحریہ ٹاؤن کی قبضہ گیری کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔