پاکستان

نفرتوں کے کھیل‘ کھیلوں کی نفرت…

فاروق سلہریا

29 جون کو ورلڈ کپ کے سلسلے میں ہونے والے پاک افغان کرکٹ میچ نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ کم از کم جنوب ایشیا کی حد تک یہ مقابلہ کرکٹ کا عالمی کپ نہیں بلکہ نفرتوں کا ورلڈ کپ ہے۔ سٹیڈیم کے اندر افغان اور پاکستانی تماشائیوں کے مابین مار پیٹ کے مناظر سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ پاکستانی چینل کچھ افغان تماشائیوں کے قابل اعتراض برتاؤ‘ بالخصوص پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش کو جواز بنا کر افغانستان کے خلاف نفرت اگل رہے ہیں۔ نفرت کی سب سے بڑی کمین گاہ سوشل میڈیا بنا ہوا ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بُک پر افغانستان کے عام لوگوں کو ”حرام خور“ قرار دیا جا رہا ہے۔

ابھی بنگلہ دیش سے میچ باقی ہے۔ میچ ہونے کی دیر ہے کہ ایک مرتبہ پھر 1971 ء کی یادیں تازہ کی جائیں گی۔ اگر بنگلہ دیش جیت گیا تو وہ اسے جنگ آزادی کی کامیابی کا تسلسل قرار دیں گے۔ پاکستان جیت گیا تو کہا جائے گا کہ بنگلہ دیش بھارت کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔شکر ہے ایران کی کرکٹ ٹیم نہیں ہے ورنہ ملک میں فرقہ واریت بھی ایک نیا رخ اختیار کر جاتی۔ بھارت کے خلاف میچ کے موقع پر جو ہوا اس کا احوال ہم چند دن پہلے ان صفحات پر رپورٹ کر چکے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ نصابی کتب، میڈیا، دائیں بازو کی سیاست اور نسیم حجازی سکول آف تھاٹ والے ادب کی طرح نفرت پھیلانے، شاونسٹ قوم پرستی اور گالم گلوچ پر مبنی علاقائی بیانئے کی ترویج کا ایک نیا پلیٹ فارم اب کرکٹ بن گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ نفرتیں کھیل کہ وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ یوں ہے کہ نفرتوں کی وجہ سے کھیل نے تفریح کی بجائے جنگ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ گو یہ جنگ بیانئے کی حد تک رہتی ہے مگر یاد رہے اصلی جنگ سے پہلے حکمران طبقہ ”دشمن“ کو ”حرام خور“ ثابت کرتا ہے۔ میدان سے پہلے جنگ ذہنوں اور دماغوں میں لڑی جاتی ہے۔

اس جنگ کا ایک صنفی پہلو بھی ہے۔ مثلاً بھارت کو یاد دلایا جاتا ہے کہ شعیب ملک ثانیہ مرزا کو ”جیت“ کر لایا تھا۔ ہم تمہارے ”جوائی“ ہیں (یعنی اگر ہم تمہارے بیڈ روم کے اندر گھس سکتے ہیں تو تمہارے فوجی اڈے کیا چیز ہیں)۔ اگر ہم تمہاری ”عزت“ جیت لائے ہیں تو ورلڈ کپ تو کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

نفرت سے زہر آلود ایسے جنگی اور صنفی برتری کے بیانئے اپنے ملک کے اندر لوگوں کو کافی حد تک متحد کرتے ہیں اور عالمی اور علاقائی سطح پر انہیں تقسیم کرتے ہیں۔ نفرتوں کے اس کاروبار کا حکمران طبقات کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ طبقاتی دشمن (جو حکمران طبقہ خود ہوتا ہے) نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ عوام کا غم و غصہ بیرونی ”دشمن“ پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں تاریخ، سیاست اور حقائق مسخ ہو جاتے ہیں۔ جنون کی کیفیت میں دلائل نہیں دیکھے جاتے۔

پاکستان کے حوالے سے افغان لوگوں کی ہی مثال لیجئے۔ ایک زمانہ تھا انہیں پاکستان کا میڈیا گلوریفائی کرتا تھا۔ ”پناہ“ جیسے لانگ پلے پاکستان ٹیلی وژن سے نشر کیے جا رہے تھے۔ افغانوں اور افغانستان کی تعریف میں علامہ اقبال کے شعر اسکول میں رٹائے جاتے تھے۔ یہ افغان ”جہاد“ کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ افغانستان میں قائم ہونے والی ایک ایسی حکومت کو گرانے کی کوشش امریکی ڈالروں سے جاری تھی جو خود کو سوشلسٹ اور مارکسسٹ کہتی تھی اور جس نے ملک سے جاگیرداری ختم کرنے، صنفی برابری اور سیکولر ازم کے اقدامات اٹھانے کے اعلانات کیے تھے۔ تب افغان ”احسان فراموش“ یا ”حرام خور“ نہیں تھے بلکہ ”مجاہدین“ تھے۔

افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے ابھی جنم بھی نہیں لیا تھا کہ گیارہ ستمبر ہو گیا۔ رفتہ رفتہ ڈالر آنے بند ہوتے چلے گئے (یا ان کا مقصد بدل گیا)۔ حکمرانوں نے بیانیہ بدلنا شروع کیا۔ سوشل میڈیا اور نجی چینلوں کی بھر مار نے ہماری یاداشت کو کند کر دیا ہے مگر کوشش کریں تو آپ کو یاد آئے گا کہ جب ڈینش کارٹونوں کے مسئلے پر مولوی حضرات نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو مولویوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کسی میں نہ ہو رہی تھی۔ بلکہ اربوں روپے کی تباہی کا الزام اسلام آباد میں رہنے والے افغان مہاجروں پر لگا دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد افغان مہاجروں سے وہ علاقہ (جو میٹرو سوپر سٹور کے سامنے سیکٹر الیون کا حصہ تھا) خالی کروا لیا گیا جس پر اسلام آباد کے رئیل اسٹیٹ مافیا کی نظر تھی۔

گویا ”بیرونی دشمن“ بنانا ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ محنت کش طبقے کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ”بیرونی دشمن“ سے نفرت کا نقصان مبینہ ”بیرونی دشمن“ کو ہو نہ ہو اس کے اپنے مفادات کو ضرور ہوتا ہے۔ یہ بات اور مندرجہ بالا تجزیہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ اس کا اطلاق ہندوستان، بنگلہ دیش اور افغانستان پر بھی ہوتا ہے۔ ”حرام خور“ آپ کے پڑوسی ملک سے تعلق نہیں رکھتے۔ اصل حرام خور جنوب ایشیا کے ممالک کے حکمران طبقات (اور ان کے سامراجی آقا) ہیں جنہوں نے عوام کو نفرتوں کے سوا کچھ نہیں سکھایا۔

عوام میں ایسی نفرتیں بھر کر یورپ کے حکمرانوں نے بھی اپنے جوانوں کو جنگوں کے بد ترین میدانوں میں بھیجا ہے (بالخصوص امریکی حکمران آج تک بھیج رہے ہیں)۔ اس کا ایک اظہار پہلی عالمی جنگ تھی۔ 1914ء میں پہلی عالمی جنگ کے دوران کرسمس کے موقع پر بیلجیئم کے محاذ پر وقتی جنگ بندی ہوئی۔ ایک دوسرے پر بندوقیں تانے کھڑے سپاہیوں کو بندوقوں اور توپوں کی گھن گھرج سے ہلکا سا ریلیف ملا تو ایک دن کسی سپاہی نے کرسمس کا گیت گانا شرو ع کر دیا۔ مخالف محاذ کے سپاہی بھی کورس میں شامل ہو گئے۔ پھر کیا تھا۔ کہیں سے ایک فٹ بال لیے چند سپاہی ’نو مینز لینڈ‘ (No Man’s Land) یعنی دونوں اطراف کے مورچوں کے درمیان میں پہنچ گئے۔ ایک دوسرے پر گولیاں برسانے والے سپاہی آپس میں دوستانہ فٹ بال میچ کھیل رہے تھے۔ موسیقی اور کھیل نے جرمن اور برطانوی سپاہیوں کو دوست بنا دیا۔ کرمس گفٹ ایک دوسرے کو دئیے جانے لگے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمن اور اتحادی سپاہی دوستانہ فٹ بال میچ کھیلتے ہوئے

لازمی نہیں کھیل کے نتیجے میں ”حرام خور“ دشمن پیدا کیے جائیں۔ کھیل اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں عالمی مزدور یکجہتی اور انسانیت کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ کھیل کے میدان کو مزاحمت میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضیا آمریت کے دور میں جب پاکستان میں ہر طرح کی زبان بندی تھی‘ ایمسٹرڈیم میں ہاکی کی چیمپینز ٹرافی ہو رہی تھی۔ پاکستان اور ہالینڈ کے مابین ہاکی میچ تھا۔ کچھ ترقی پسند کارکنان آمریت دشمن نعرے لگاتے ہوئے اور انقلابی بینر اٹھائے ہاکی گراونڈ میں داخل ہو گئے۔ یہ منظر پی ٹی وی پر بھی نظر آ گیا۔ یہ ایکشن ان دنوں صحرا میں بادِ صبا کی مانند معلوم ہوا۔ امریکہ کے سیاہ فام اتھلیٹ تو ایسی کئی مثالیں قائم کر چکے ہیں۔ ابھی دو سال قبل امریکہ کے کچھ سیاہ فام کھلاڑیوں نے امریکہ کا قومی ترانہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ لیکن کھیل تب ہی مزاحمت کی شکل اختیار کرتا ہے جب معاشرے میں ایسی سماجی تحریکوں کا زور ہو جو حکمران طبقے کو چیلنج کر رہی ہوں۔

رد انقلاب کے دنوں میں کھیل بھی حکمران طبقے کے گھٹیا، عوام دشمن پراپیگنڈے کا ایک ہتھیار بن جاتے ہیں۔ یہ سرمایہ داری کی اندھی قوم پرستی کا نتیجہ ہے کہ جسمانی کھیل کو نفرتوں کے کھیل میں بدل دیا جاتا ہے۔ سوشلسٹوں کا فرض ہے کہ کھیل کو یکجہتی کے ایک ایسے عمل میں بدل دیں جس سے انٹرنیشنل ازم جنم لے نہ کہ زینو فوبیا۔ محنت کش افغانستان کے ہوں یا بنگلہ دیش یا بھارت کے‘ ان کا مفاد ایک ہے۔ انہیں تقسیم کرنے کی ہر حرکت کی مخالفت کرنی چاہئے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔