لاہور (جدوجہد رپورٹ) 5 جولائی 1977ء کے یوم سیاہ پر پاکستان میں پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کا ایک بدترین فوجی آمریت مسلط کی گئی۔
یہ آمریت باقی فوجی آمریتوں سے اس لئے بھی مختلف تھی کہ اس کا مقصد محنت کش طبقے کو بھٹو دور میں حاصل ہونے والے چند حقوق کا خاتمہ تھا۔
اس آمریت کے خلاف جمہوریت نواز قوتوں نے جس طرح مزاحمت کی، وہ پاکستان کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ یہ درست ہے کہ ضیا آمریت نے فرقہ واریت، نسلی عصبیت، مذہبی جنونیت، ’افغان و کشمیر جہاد‘، سمگللنگ، کالے دھن اور برادری ازم کے جو بیج طبقاتی، سوشلسٹ اور جمہوری تحریک کو کمزور کرنے کے لئے بوئے تھے…آج وہ تناور درخت بن کر لہرا رہے ہیں۔
دریں اثنا، پی پی پی جو 5 جولائی کو یوم سیا ہ کے طور پر مناتی تھی، اب ریاست بحریہ اور اسٹیبلشمنٹ کے قدموں میں ڈھیر ہے۔
ہاں البتہ ترقی پسند قوتیں بھی بحالی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ ’جب لال لال لہرائے گا…تب ہوش ٹھکانے آئے گا‘ ایک مقبول نعرہ بنتا جا رہا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ وقت بدلے گا۔ اس یقین کی بنیاد تاریخ کے مادی نظرئے پر مبنی ہمارا شعور ہے۔ اس شعور کی ترجمانی احمد فراز نے اپنی لافانی نظم (بعنوان: ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟) میں کی ہے:
فقیرانہ روش رکھتے تھے
لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے
کہ اپنے خواب بیچیں
ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے
لیکن روکشِ بازار کب تھے
ہمارے ہاتھ خالی تھے
مگر ایسا نہیں پھر بھی
کہ ہم اپنی دریدہ دامنی
الفاظ کے جگنو
لئے گلیوں میں آوازہ لگاتے
"خواب لے لو خواب”
لوگو
اتنے کم پندار ہم کب تھے
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں
کہ جن کو دیکھنے کی آرزو میں
ہم نے آنکھیں تک گنوا دی تھیں
کہ جن کی عاشقی میں
اور ہوا خواہی میں
ہر ترغیب کی شمعیں بجھا دی تھیں
چلو ہم بےنوا
محرومِ سقف و بام و در ٹھہرے
پر اپنے آسماں کی داستانیں
اور زمیں کے انجم و مہتاب کیوں بیچیں
خریدارو!
تم اپنے کاغذی انبار لائے ہو
ہوس کی منڈیوں سے درہم و دینار لائے ہو
تم ایسے دام تو ہر بار لائے ہو
مگر تم پر ہم اپنے حرف کے طاؤس
اپنے خون کے سرخاب کیوں بیچیں
ہمارے خواب بےوقعت سہی
تعبیر سے عاری سہی
پر دلزدوں کے خواب ہی تو ہیں
نہ یہ خوابِ زلیخا ہیں
کہ اپنی خواہشوں کے یوسفوں پر تہمتیں دھرتے
نہ یہ خوابِ عزیزِ مصر ہیں
تعبیر جن کی اس کے زندانی بیان کرتے
نہ یہ ان آمروں کے خواب
جو بےآسرا خلقِ خدا کو دار پر لائیں
نہ یہ غارتگروں کے خواب
جو اوروں کے خوابوں کو تہہِ شمشیر کر جائیں
ہمارے خواب تو اہلِ صفا کے خواب ہیں
حرف و نوا کے خواب ہیں
مہجور دروازوں کے خواب
محصور آوازوں کے خواب
اور ہم یہ دولتِ نایاب کیوں بیچیں
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟