مظہر آزاد
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ووٹ کے حق کا بل اپوزیشن کی مخالفت اور احتجاجوں کے باوجود گذشتہ روز منظور کر لیا گیا۔ حکمران جماعت کے حامی اِس کو تاریخی سنگ میل قرار دے کر اِس کا جشن منا رہے ہیں جبکہ حزب اختلاف مختلف وجوہات کی بنا کر اِس کی مخالفت کر رہی ہے۔
ریاست کی کرتوتوں سے باخبر ہمارے اکثر دوست بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اِس سلسلے کو سائنس کی ترقی کے ساتھ جوڑ کر اِس کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بلاوجہ ہر چیز کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ اِس بل پر اِن دوستوں کا واحد اعتراض مستقل طور پر باہر رہائش پذیر پاکستانیوں کے ووٹ کے حوالے سے ہے اور کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ پاکستان نہیں آتے اورمستقل باہر ملکوں میں رہائش پذیر ہیں، انہیں ووٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ پاکستانی حکومتوں کی پالیسیوں کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
مسئلہ بیرون ملک مستقل اور غیر مستقل رہائش پذیر پاکستانیوں کا بالکل بھی نہیں ہے۔ کیا خوش فہمی کے شکار ہمارے اِن دوستوں کو اندازہ ہے کہ اِس مرحلے پر بیرون ملک موجود پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے قانون سے انتخابات چوری کرنے والے کتنا فائدہ لے سکتے ہیں؟ ملک سے باہر تقریباً 90 لاکھ سے زائدپاکستانی رہتے ہیں۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ 90 لاکھ ووٹ پاکستان کے انتخابات کے ساتھ کیا کیا کر سکتے ہیں؟
اگرکم ٹرن آؤٹ کے حساب سے 90 کے بجائے 30 لاکھ ووٹ بھی تصور کر لیں اور پھر اِس کا موازنہ پچھلے الیکشن میں حکمران جماعت اور دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کے ووٹوں کے فرق کے ساتھ کریں تو آپ حیران رہ جائینگے کیونکہ وہ فرق بھی 30 لاکھ ووٹوں کا تھا۔
مطلب یہ کہ دھاندلی کے دوسرے طریقوں سے بالاتر صرف بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹوں کے ذریعے ایک ہاری ہوئی جماعت کو آسانی سے حکومت دی جا سکتی ہے۔ پچھلے انتخابات میں آر ٹی ایس بند کر کے نتیجہ بدلنے والوں نے اگر بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹوں میں گڑ بڑ کی تو بڑی آسانی کے ساتھ نتائج تبدیل ہو جائینگے۔ اگر بیرون ملک سے جعلی ووٹ آئے تو ان کی تصدیق میں کتنا عرصہ لگے گا اور کیا ضمانت ہے کہ تصدیق بھی صحیح طرح ہو گی یا نہیں۔
ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے جعلی ووٹوں کا سب کو پتہ ہے لیکن وہ آج بھی اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بیرون ملک کے جعلی ووٹوں یا دوسری بے قاعدگیوں کا کوئی حل نہیں ہو گا۔
دوسری بات یہ ہے اِس حکومت کی نیت کب سے ٹھیک ہو گئی اور یہ حکومت کب سے اعتبار کے قابل ہو گئی؟ جس حکومت پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اِس کو غیر جمہوری قوتیں اقتدار میں لائی ہیں اور جس پارلیمنٹ پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اسے غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے قابو کیا جا رہا ہے تو وہ جمہوریت اور عوامی مفاد کیلئے کیسے اتنا بڑا کام کر رہی ہے؟ جس بل کو پاس کرنے کے لیے ناراض ارکان کو بھی معلوم افراد نے اجلاس میں بلایا اس میں عوامی خیر کیسے ہو سکتی ہے؟
تیسری اور اہم بات یہ کہ ابھی تک گلگت بلتستان کے لوگوں کے پاس قومی اسمبلی کیلئے اپنے امیدواروں کو منتخب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن ریاست اور خاص کر یہ حکومت اتنی مہربان ہو گئی کہ بیرون ملک موجود پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے رہی ہے (یہ درست ہے کہ گلگت بلتستان کا مسئلہ الجھا ہوا ہے لیکن جب ان حکمرانوں نے کچھ کرنا ہو تو راستہ نکال لیتے ہیں)۔ اسی طرح ملک کے اندر لیکن اپنے گھروں سے دور شہروں میں نوکریاں، کاروبار اور مزدوری کرنے والے لوگوں کیلئے ان شہروں میں ووٹ ڈالنے کا کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے اور وہ یا تو اپنے کروڑ پتی امیدواروں کے رحم و کرم پر ہیں اور یا ان کا ووٹ ضائع ہو جاتا ہے لیکن بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جا رہا ہے۔
چوتھی بات یہ کہ چونکہ باہر کے ملکوں میں ہر جگہ پولنگ سٹیشن بنائے نہیں جا سکتے اس لیے غالب امکان ہے کہ اسی ملک کے مرکزی شہر میں موجود سفارتخانے میں ہی پولنگ سٹیشن ہونگے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ بیرون ملک موجود کتنے فیصد پاکستانی اپنی مزدوری چھوڑ کر سینکڑوں کلومیٹر دور اپنے خرچے پر جا کر پاکستانی سفارتخانے میں ووٹ دینگے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں تو چلیں کچھ نہ کچھ کر لیں گی لیکن چھوٹی جماعتیں بیرون ملک اپنی انتخابی مہم کیسے چلائیں گی؟
اپوزیشن کے رکن مولانا اسعد محمود نے سوال کیا ہے:”کیا وجہ ہے کہ 19 نومبر سے پہلے یہ بل منظور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟“ انھوں نے کہا کہ یہ بل 19نومبر کو منظور کیے جائیں۔ ”کیا 19 نومبر کے بعد کوئی قیامت آ جائے گی۔ قوم کو بتایا جائے 19 نومبر سے پہلے ہنگامی قانون سازی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔“
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں موجود ناراض رکن اسمبلی عامر لیاقت سے جب ان کی آمد کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ کہنے لگے: ”وہ آئے نہیں ہیں بلکہ ان کو لایا گیا ہے“۔ یہ اس بات کی گواہی کر رہی ہے کہ یہ کھیل کسی اور کا بنایا ہوا ہے۔ 19 نومبر کو جنرل فیض کی جگہ جنرل ندیم انجم ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ لے لیں گے اور بہت سے مبصرین کی نظر میں یہ معاملات اِس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ کھیل اسی سلسلے کی کڑی ہے (صحافی اسد طور کے تازہ ویلاگ کے مطابق محض جنرل فیض تک بات کو محدود کرنا ممکن نہیں، ان کے مطابق پورا ادارہ شامل ہے)۔
سوال یہ بھی ہے کیا بیرون ملک پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ووٹ ڈالنے کا ہے؟ انہوں نے کب ووٹ کے حق کے لیے تحریک چلائی؟ ٹیکس کی بھرمار کیوجہ سے غریب مزدور اپنے استعمال کا موبائل بھی ٹیکس ادا کئے بغیر نہیں لا سکتا، وہ کیوں معاف نہیں کرواتے؟ ان کے لیے سرکاری ائیر لائین کو سبسڈی دے کر کرایہ کیوں کم نہیں کرواتے تاکہ وہ انتخابات کے وقت آسانی سے آ سکیں۔ اسی طرح بیرون ملک فوت ہونے والوں کو اپنے ملک لانے کے لیے سفارتخانے ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کریں تاکہ میت مہینوں تک رکی نہ رہے اور گھر والے سخت اذیت اور کرب سے نہ گزریں۔ ایسی قانون سازی کریں کہ جن کے مقدمے پاکستانی عدالتوں میں ہیں ان کا محدود اور مقررہ وقت میں فیصلہ ہو تاکہ ان کو بار بار نہ آنا پڑے۔ ایسے اور بھی بہت سارے مسائل ہیں جن کا فوری حل حق ووٹ سے زیادہ ضروری ہے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر ایسے اعتراضات اور بھی بہت سارے ہیں لیکن مختصراً یہ کہ اِس بل کے ذریعے بیرون ملک پاکستانیوں کو ان کے حق دیے جانے کے نام پر دھاندلی کا ایک عظیم الشان منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔