خبریں/تبصرے

یہ خون خاک نشیناں تھا

ناصر اقبال

گاؤں رانجھا ضلع سرگودھا کا رہائشی چوبیس سالہ نوجوان مزدور ظہیر عباس ولد منیر حسین 28 جولائی کو بابری سٹیل فرنس، واقع گنجہ سندھو روڈ، شمالی لاہور، حفاظتی انتظامات کی عدم موجودگی کی وجہ سے دوران کام چالو فرنس میں گر کر جاں بحق ہو گیا۔

انتہائی تیز درجہ حرارت کی وجہ سے متوفی کی لاش تو درکنار راکھ بھی ورثا کو دستیاب نہ ہو سکی۔ متوفی کے زیر کفالت بیوی اور چھ ماہ کی بچی کے علاوہ بوڑھے ماں باپ بھی شامل تھے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق مذکورہ فرنس گورنمنٹ کے کسی بھی محکمے میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔ مالکان بیرون ملک رہائش پذیر ہیں جبکہ فرنس کو ایک عدد منیجر معہ چند غنڈوں اور دو درجن مزدوروں کی مدد سے چلایا جا رہا تھا۔ وقوعہ یا حادثہ کے دن تقریباً تین بجے سہ پہر، جب چند لوگ ہی ڈیوٹی پر موجود تھے فرنس انتظامیہ نے حادثے کے فوری بعد موقع پر موجود تمام افراد کو’اعتماد‘ میں لے کر معاملہ دبانے کی کوشش کی۔ فرنس کے تمام گیٹ ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دیئے گئے۔ یوں اپنے تئیں معاملے کو ختم کر دیا گیامگر حصہ نہ ملنے کے کارن انتظامیہ کے ایک ناراض جونیئر کارندے نے حادثہ کی فوٹیج سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔ یوں اس خونچکاں خبر سے دنیا واقف ہوئی۔

اس کے بعد لیبر ڈیپارٹمنٹ کے کارندے حرکت میں آئے مگر انہیں فرنس یا جائے حادثہ پر زبردستی جانے سے روک دیا گیا۔ یکم اگست کو لیبر آفیسر نے مجبوراًعلاقہ تھانہ (مناواں) کا رخ کیا اور اپنی مدعیت میں ابتدائی رپورٹ (FIR)درج کروا دی۔ اگلے دن پولیس موقع پر پہنچی اور شاید کوئی ضابطے کی کاروائی بھی کی ہو لیکن تا حال کوئی بھی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی حتیٰ کہ پولیس ابھی تک ورثا کے بیانات بھی قلم بند نہیں کر سکی۔ اس بات کی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ پولیس اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کو بھی خوش کر دیا گیا ہے۔

3 اگست کو حقوق خلق موومنٹ کے رہنمافاروق طارق اور راقم نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ علاقہ میں خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی ذی روح معاملہ کے متعلق تفصیلات بتانے سے گریزاں تھا۔ بڑی مشکل سے فرنس تک پہنچے اور بھر خاصی مشکل سے فرنس کے احاطے میں داخل ہو پائے۔ چند عدد ملازمین کی معیت میں جائے وقوعہ کا مکمل معائنہ کیا البتہ وہ تمام افراد کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے انکاری رہے۔

بہرحال یہ ایک ڈیولپنگ سٹوری (Developing Story) ہے۔ متوفی مزدور کے ورثا، مزدور تحریک، سول سوسائٹی اور حکومت وقت اس معاملہ میں کونسا رخ اختیار کرتی ہے پوزیشن اگلے چند دنوں میں واضع ہو جائے گی۔ ہمارا گمان غالب ہے اس معاملہ کو اب دبایا نا جا سکے گا۔

بقول فیض احمد فیض ’یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا‘ مگر صد افسوس اس بات کا ہے کہ اس دفعہ تو یہ خون رزق خاک بھی نہ ہو سکا۔

Nasir Iqbal
+ posts

ناصر اقبال گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان کی ترقی پسند تحریک کیساتھ وابستہ ہیں۔