آعمش حسن عسکری
پاکستانی فنکار اپنی قدامت پسند آراء کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔یہ شمار کرنا ہی مشکل ہے کہ کتنی بار ہمارے اداکار،گلوکار اور دیگر فنکار ایسی آرا کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے اپنے طرزِ زندگی سے میل نہیں کھاتیں۔
مثلاً آپ نے کتنی بار وینا ملک کو سادہ لباس کی اہمیت پر زور دیتے سنا ہو گا۔ کچھ ہفتے پہلے نوشین شاہ پاکستانی خواتین کے بدلتے ہوئے لباس پر برہم نظر آئیں حالانکہ وہ خود مغربی لباس پہننے کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔ویسے قدامت پرست ہوں یا آزاد خیال،ہر دو کو خواتین کے لباس کو موضوع بنا کر کوئی الگ ہی سکون ملتا ہے۔
قول و فعل کا یہ تضاد خواتین فن کاروں تک ہی محدود نہیں ہے۔کچھ عرصہ پہلے سینیر اداکار نعمان اعجاز کو ایک انٹرویو میں ایک ہی وقت میں کئی خواتین کے ساتھ تعلق بنا اور نباہ لینے کی شیخیاں بگھارتے دیکھا گیا لیکن جب ان سے جنسی ہراسانی کے خلاف چلنے والی مہم کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فوراً پینترا بدل لیا۔ کہنے لگے کہ یہ می ٹو شی ٹو محض دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔
بات فنکار برادری کے قدامت پسند نظریات پر ہو اور خلیل الرحمٰن قمر کا ذکر نہ ہو۔ایک طرف تو وہ اپنی فلموں میں آئٹم سانگ تک ڈالتے ہوئے نہیں گھبراتے لیکن دوسری طرف جب بھی خواتین سے متعلق رائے پوچھی جائے تو کلچر اور مذہب کا سہارا لے کر کھلی عورت دشمنی پر اتر آتے ہیں۔
یہ سلسلہ تھمنے ہی میں نہیں آتا۔ چند روز قبل صدف کنول اسی میدان میں کود پڑیں۔۔۔ اگرچہ انھوں نے بھی فلموں میں آئٹم سونگ کئے ہیں لیکن گھرگرہستی اور بیوی کے فرائض سے متعلق ان کا موقف سن کر یوں لگا کہ جیسے وہ بہشتی زیور پڑھ کر سنا رہی ہوں۔
اس سارے مسئلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کوئی شخص بالعموم اور فنکار برادری سے تعلق رکھنے والے بالخصوص ایسی بات کیوں کرتے ہیں جو ان کے اپنی زندگی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔
اس کا ایک عام اور سادہ جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ فنکار لوگ ایک خاص گلیمرائزڈ زندگی تو اپنا لیتے ہیں لیکن سماج سیاست ثقافت اور صنفی عدم توازن ایسے نازک معاملات پر ان کا مطالعہ یا مشاہدہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لہذا انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں کام کرنے کا ہرگز مطلب یہ
نہیں ہے کہ آپ کے نظریات میں کوئی تدیلی واقع ہو۔ ذہانت اور سمجھداری کا تعلق تن پہ رکھے لباس سے نہیں بلکہ دماغ میں سجائے خیالات سے ہوتا ہے۔
اس تضاد کی وجہ لیکن محض جہالت اور لاعلمی نہیں ہے۔سیلیبرٹیز اپنے امیج کی غلام ہوتی ہیں۔ وہ اپنے پرستاروں کو ناراض نہیں کر سکتی۔ بالی وڈ کے تین بڑے خانوں ہی کی مثال لیجیے۔
اتنی طاقت اور اثر ورسوخ ہونے کے باوجود شاہ رخ،عامر اور سلمان ہندوستان میں میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے خلاف کوئی واضح موقف نہیں اپنا سکے۔ انھیں اپنے پرستاروں کی ناراضگی سے خوف آتا ہے۔ مثلاً شاہ رخ خان کو ’مائی نیم از خان‘میں محض ایک مسلمان کا کردار ادا کرنے پر ہندو بنیاد پرستوں کی طرف سے اشتعال اور نفرت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ممکن ہے کہ بہت سارے پاکستانی فن کار بھی کنزرویٹو اکثریت کے غم و غصے کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہوں۔ حالیہ دنوں میں ملالہ یوسف زئی کو شادی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار پر کتنی نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔وہ فنکار بھی ملالہ کو مشرقی اقدار پر لیکچر دینے چلے آئے جن کا مذہب اور مشرقی اقدار سے دور کا علاقہ بھی نہیں ہے۔۔ ماتھیرا نے بھی موقع دے کر ملالہ پہ ہاتھ صاف کئے۔
بعض اوقات تو فن کار واقعاً وہی بات کہتے ہوں گے جس پر من سے یقین رکھتے ہوں لیکن قرین قیاس ہے کہ بعض صورتوں میں انھیں اکثریت کی طرف سے آنے والا شدید رد عمل بھی روک دیتا ہے۔
احساس ِ گناہ سے لبریز دماغ کو ہمیشہ حمایت اور اثبات کی ضرورت رہتی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں بہت سارے فن کار اس احساسِ گناہ کے ساتھ جیتے ہیں کہ ان کی روزی کا ذریعہ ایک ایسا پیشہ ہے جس کی ان کا مذہب اور کلچر اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے فن کار ایک خاص وقت میں اپنا کام چھوڑ کر مذہب کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔
سو پہلی بات تو یہ کہ عمومی طور پر ہمارے ہاں فن کار لوگ سیاست سماج، کلچر اور صنف ایسے نازک معاملات سے نابلد ہوتے ہیں۔ دوسرا قدامت پسند پرستاروں کی ناراضگی بھی انھیں ایسے موقف اختیار کرنے پرمجبور کر دیتی ہے جو ان کے اپنے طرز زندگی سے متصادم ہو۔ اور پھر ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنی بات نہ کہہ سکنا ہے تو فاشزم ہوتا ہے۔
ہر دو صورتوں میں یہ سماج ایک اندھا کنوان بنتا جا رہا ہے