فاروق سلہریا
پچھلے دس سال پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہر برسات میں ایک ناٹک کیا کرتے تھے۔ ہوتا یوں ہے کہ مون سون آتے ہی لاہور کے پرانے علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ جس برسات کے بارے میں پنجاب اور بالخصوص لاہور کے شاعر صدیوں سے رومانوی شاعری لکھتے آئے ہیں وہی برسات اہل لاہور کے لئے ایک عذاب بن کر آتی ہے۔ بجائے اس کے کہ برسات سے لوگ لطف اندوز ہوں تخت لاہور کے تخت نشینوں نے اسے عذاب کے ساتھ ساتھ سیاسی نوٹنگی کا ایک تہوار بنا دیا ہے۔
شہباز شریف لانگ شُوز پہن کر، سدھائے ہوئے میڈیا کے ہم نشین، سڑکوں پر مارچ کرتے۔ یہ ناٹک انہوں نے نوے کی دہائی میں شروع کیا تھا جب وہ پہلی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ اُن دنوں دونوں بھائی (ایک وزیر ِاعظم تھا، دوسرا وزیرِ اعلیٰ) ایک اور ناٹک بھی کرتے تھے: کھڑے کھڑے کسی ایس ڈی او یا تحصیل دار کو معطل کر دیتے۔ ناقدین ان دنوں بھی شریف خاندان کو یاد دلاتے کہ لکشمی چوک میں جمع پانی کا حل کسی نا اہل سرکاری اہل کار کی معطلی نہیں، نکاسی آب کا دیرپا ترقیاتی منصوبہ ہے۔ یا کسی بے رحم ایس ایچ او کو معطل کرنے سے پولیس کا ظلم ختم نہیں ہو گا‘ اس کے لئے عوام کو حقوق دینا ہوں گے۔
نیا پاکستان بھی چونکہ اتنا ہی اچھا ہے جتنا پرانا لہٰذاپنجاب کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے ناٹک نے تو شہباز شریف، جنہیں پی ٹی آئی والے شوباز شریف کہتے تھے، کو بھی مات دے دی۔ تین دن قبل ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی۔ موصوف پانی میں ڈوبی سڑک میں خود گاڑی چلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پانی میں پھنسی چند خواتین کو گاڑی میں لفٹ دیتے ہیں۔ ویڈیو ختم ہونے سے پہلے ان کی گاڑی میں موجود ان کے کسی حواری کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ مذکورہ نامعلوم حواری شہباز شریف پر تنقید کرتا سنائی دیتا ہے۔ گویا یہ لوگ ابھی تک اپوزیشن میں ہی ہیں۔
حکمرانوں کے یہ ناٹک عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ حکمرانوں کی یہ نوٹنکیاں اور بے کار کی شعبدہ بازیاں ان تخت نشینوں کی منافقت، بدعنوانی، بد اخلاقی اور بد عہدی پر پردہ نہیں ڈال سکتیں۔
پہلی بات تو یہ کہ لاہور یا پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں 1979 ء سے وہی لوگ حکومت کر رہے ہیں جن کی آبیاری ضیا آمریت نے کی۔ دو خاندان اہم ہیں: شریف اور چوہدری۔ یہ حکمران خاندان مل کر یا علیحدہ علیحدہ دھڑوں کے طور پر پنجاب میں بر سر اقتدار چلے آ رہے ہیں۔ شریف برادران براہِ راست بیس سال پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر فائز رہے۔ ان کا انتخابی لاڑکانہ بھی لاہور ہے۔ اس کے باوجود ہر برسات میں شہباز شریف لانگ شوز پہن کر پانی میں ڈوبی سڑکوں پر چلتے ہوئے دکھائی دئیے۔
جب شریف خاندان حکومت میں نہیں تھا تو گجرات کے چوہدری‘ ضیا باقیات کے ساتھ مل کر بر سر اقتدار تھے۔ آج اگر لاہور ایک مرتبہ پھر پانی میں ڈوبا ہوا ہے تو اس کے ذمہ دار شریف خاندان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو اس وقت پارٹی بدل کر عمران خان کے ساتھ ہیں۔
شریف خاندان نے لاہور کو اپنے بار بار کے وعدے کے مطابق پیرس کیوں نہیں بنایا؟ دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔
اول، مسلم لیگ نواز اور شریف خاندان موجودہ نظام کی پیداوار ہی نہیں اس سے بھر پور مستفید بھی ہوتے رہے ہیں۔مسلم لیگ کے پیشِ نظر بنیادی سٹرکچرل تبدیلی یا اصلاحات کا ایجنڈانہیں تھا۔ یہ سرمایہ داروں اور تاجر طبقے کی جماعت ہے جو محنت کش طبقے کے ووٹ خریدنے پر یقین رکھتی ہے۔ اس کا یہ طبقاتی کردار تھا جس نے اس کے ترقیاتی ماڈل کو تشکیل دیا اور یہ ترقیاتی ماڈل وہ دوسری وجہ ہے جس کی وجہ سے لاہور اور باقی پنجاب (اور بالعموم پورے پاکستان) کی یہ حالت ہے۔
شریف خاندان کا ترقیاتی ماڈل تھا ”دکھاوے کی ترقی“ جسے انگریزی میں ڈیمانسٹریشن ڈویلپمنٹ کہا جا سکتا ہے۔ ”دکھاوے کی ترقی“ سے مراد ہے ایسی ترقی جو آنکھوں کو چکا چوند کر دے، چمک دمک والی ترقی، ایسی ترقی جس کے نام پر ووٹ مانگے جا سکیں۔ اس ترقی کی شکلیں تھیں موٹر ویز، ائر پورٹس، انڈر پاسز اور اُوور ہیڈ بریجز۔ بوجہ یہ ماڈل ’کامیاب‘ رہا لہٰذا انکے مخالف بھی اس پر عمل پیرا رہے لہٰذا آج لاہور میں بے شمار انڈر پاس اور اوور ہیڈ تو ہیں مگر گٹر ہر وقت ابلتے رہتے ہیں اور برسات میں لاہور اپنی ہی گندگی میں ڈوب جاتا ہے۔
نکاسی آب، صاف پانی، مفت اور اچھی تعلیم، صحت، سینیٹری، کوڑے کی ری سائیکلنگ اور دیرپاروزگار یا ماحول دوست زراعت کی اس ترقیاتی ماڈل میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مزید برآں ”دکھاوے کی ترقی“ میں اس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی حواریوں کو ٹھیکے دے کر انکی وفاداری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔”دکھاوے کی ترقی“ اور کرونی کیپٹل ازم (Crony Capitalism) کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستانی سرمایہ داری کا بحران جتنا بڑھ گیا ہے اور نئے پاکستان کے حکمران جس قدر نااہل ہیں اس کے پیش نظر اب یہاں دکھاوے کی ترقی کی گنجائش بھی نہیں رہی ہے۔
سچ پوچھئے تو سوشل میڈیا آنے سے پہلے شہباز شریف کی شعبدہ بازیاں کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتی تھیں کیونکہ بد عنوان میڈیا میں ان کی سیاسی نوٹنکیوں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے۔ تعریفی کالم اور شذرے لکھے جاتے۔عمران خان سے پہلے اگر کسی نے میڈیا کا استعمال کیا ہے تو وہ شریف خاندان تھا۔ آج بھی میڈیا کا ایک اہم حصہ ان کے ساتھ ہے۔
لیکن اب صورتحال کچھ بدل گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد سیاسی ناٹک اتنے کار گر نہیں رہے مگر تخلیق سے عاری تاجروں اور شو بزداروں کو یہ کون سمجھائے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔