آعمش حسن عسکری
کیا کوئی فلم یا ڈرامہ محض تفریح کی نیت سے دیکھا جا سکتا ہے، بالخصوص ایسی فلم یا ڈرامہ جس کا بہت سامواد تاریخی اور سیاسی حالات پر مبنی ہو؟
اس سوال کا جواب نفی میں ہے… اور وہ اس لئے کہ جو کچھ بھی ہم محض تفریح کے ارادے سے دیکھتے ہیں وہ ہمارے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور ہمارے ذہنوں میں کچھ تصویروں کو پختہ تر کر دیتا ہے۔
ذرا اسی اور نوے کی دہائی میں پی ٹی وی کے کراچی مرکز سے پیش کئے جانے والے پی ٹی وی ڈراموں کو چشم تصور میں لائیے۔ ان ڈراموں میں سندھی کرداروں کو اکثر ایک اَن پڑھ اور جاہل جاگیردار کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اردو بولنے والوں کو ایک تہذیب یافتہ اور جدید روایتوں کے امین کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جو ’ہوائیں‘، ’شام سے پہلے‘ اور’گھٹن‘جیسے ٹی وی ڈرامے دیکھ کر بڑی ہوئی ہے۔ بسا اوقات ان ڈراموں کی کہانی ایک ایسے کردار کے گرد گھومتی تھی جو کسی بھی طرح سے جاگیردارانہ سندھی نظام سے فرار ہو کر کراچی جا چھپتا ہے۔ کراچی کے اردوبولنے والے تہذیب یافتہ ماحول میں پرورش پاتاہے اور واپس آ کر اپنے سماج کے خلاف لڑنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ دیکھا جائے تو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری آج بھی انہی بنی بنائی تصویروں پر پلتی ہے۔
یقین نہ آئے تو آج آپ یہ دیکھ لیجیے کہ اردو ڈراموں میں پنجابیوں کو یا پنجابی بولنے والوں کو کیسے پیش کیا جاتا ہے۔ اکثر ڈراموں میں گھر کی ایک نوکرانی ہوتی ہے جو پنجابی کے ماجھے لہجے میں اردو بولتی دکھائی جاتی ہے۔ ذرا سرحد پار نگاہ کیجیے تو دیکھئے گا کہ بھارتی فلموں میں مسلمانوں کو کس طرح پیش کیا جاتا ہے۔ اور اس پر تو باقاعدہ فیس بک میمز اور لطیفے بنتے ہیں کہ بالی وڈ کے فلمساز مسلمانوں کا کیسا مضحکہ خیز اور یک طرفہ چہرہ دکھاتے ہیں۔
پہلے پہل یہ روش ذرا آسان ہوتی ہو گی کہ جب ایک جگہ کا ڈرامہ یا فلم لسانی، علاقائی یا جغرافیائی حدوں کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا مشکل تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ دنیاسکڑ گئی ہے۔ ایک جگہ کی فلم یا ڈرامہ فوراً دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے لیکن فاصلے کم ہونے کے باوجود اپنے سے مختلف لوگوں کو یک رنگی اور من چاہے رنگوں اور زاویوں سے پیش کرنے کے امکانات کم ہونے کی بجائے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس سے نہ صرف مذکورہ مذہبی یا تہذیبی گروہ کا نقصان ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات تو تاریخی واقعات اور شخصیات کو ایک من چاہا سیاسی رنگ دینے کے لیے ایک خاص زاویے سے پیش کیا جاتاہے۔ یہاں سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انٹرٹینمنٹ بھی سیاسی عوامل کے تابع ہوتی ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں بھارت میں ’پدماوت‘ اور’باجی راؤ مستانی‘ جیسی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں جو واضح طور پر آر ایس ایس اور اس سے متاثر ہونے والی حکمراں جماعت بی جے پی کے سیاسی پروجیکٹ سے منطبق ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ ظاہر ہے ایسے میں ان فلموں کا تفریحی پہلو اپنے سیاسی مقاصد کی وجہ سے کافی ماند پڑ جاتا ہے۔
عالمگیریت کے اس دور میں یہ ریاست کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتا جا رہا ہے کہ شہری اپنے فرصت کے وقت میں کیا دیکھتے ہیں لیکن کچھ عوامل ایسے ہیں جو آج بھی اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ شہری تفریح کے ارادے سے کن چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس انتخاب میں اس بات کو بہت عمل دخل حاصل ہے کہ ایک فرد کا تعلق سماج کے کس طبقے سے ہے، کس طرح کے نظریات نے اس کی فکری نشوونما کی ہے یا اس نے کس قسم کے خاندان میں پرورش پائی ہے۔
اگر اسی کسوٹی پر بے پناہ مقبولیت پانے والے ترک ڈرامے ’ارتغرل‘ کو پرکھا جائے توبالکل واضح ہے کہ فنی اورتکنیکی باریکیوں سے قطع نظر یہ ڈرامہ پاکستانی سماج کے چندطبقات کے لیے ایک جذباتی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے میں ’ارتغرل‘ کے فنی محاسن سے صرفِ نظر کرتے ہو ئے یا اس کے سیاسی پروجیکٹ پر بات ہونا ایک فطری ردِعمل ہو سکتا ہے۔ پھر جب ایسے کسی بھی سیریل کوسرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو تو اس کے سیاسی پہلو پر بات ہونا لازم ہو جاتا ہے۔
جب ہم نے ’پدماوت‘ کے جمالی پہلوؤں کو چھوڑ کراس کے ہندو بالادست طبقے کے سیاسی پروجیکٹ کی ترجمانی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تو ’ارتغرل‘ کو کیوں چھوڑ دیں؟ یہ واضح طور پر سلطانی نظامِ خلافت کا احیا چاہنے والے اردگان کا ثقافتی جواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔