آعمش حسن عسکری
چند ماہ پہلے اقبالیات پر منعقدہ ایک ادبی محفل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ صدرِ مجلس نے اپنے صدارتی خطبے میں وطنِ عزیز کی حالتِ زار کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ اپنے اس دل سوز جائزے میں انہوں نے اپنوں کی غداری، غیروں کی عیاری اور اشرافیہ کی مکاری‘ الغرض سارے مسائل کی بنیادی وجہ اقبال کے افکار سے دوری کو قرار دیا۔
انھوں نے اربابِ اختیار سے گلہ کیا کہ وہ اقبال کے افکار کی ترویج کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا رہے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس ملک میں شاید ہی کسی اور شخصیت پر اتنا کام کیا گیا ہو جتنا اقبال پر۔ ہر سال تعلیمی اداروں میں یومِ اقبال پر تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ کانفرنسوں میں تحقیقی اور تنقیدی مقالات پڑھے جاتے ہیں۔ بیسیوں ادارے اور سینکڑوں ادبی تنظیمیں اقبال کے نام پر الگ سے قائم ہیں۔ نصاب کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں اقبال پر توصیفی ابواب شامل نہ ہوں۔ بچہ سکول جاتا ہے تو اقبال کا نام سننے لگتا ہے اور جب تک تعلیم حاصل کرتا ہے اقبال کی شاعری اور افکار سے واسطہ رہتا ہے۔
سیاستدان اپنی تقریر کا آغاز کرتا ہے تو اقبال کے شعر سے۔ واعظ اپنا وعظ ختم کرتا ہے تو اقبال کے شعر سے۔ قوال، موسیقار اور موٹیویشنل سپیکر اقبال کی زندگی اور شاعری سے مثالیں دے کر سامعین کا دل گرماتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ریاستی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ اقبال کو اس قدر قبولِ عام حاصل ہے کہ آج بچہ بچہ اْن کے اشعار اور پیغام کو ازبر کر چکا ہے۔ اقبال کی روح اِس قوم کے اندر اس حد تک حلول کر چکی ہے کہ نو نہالانِ چمن فیس بک پہ بیٹھے بٹھائے اقبال کے شعر بنا لیتے ہیں۔ اقبال نے تو شاہین بننے کا کہا تھا لیکن یہاں ہر بندہ خود اقبال بنا پھرتا ہے۔
آپ اردو میں کوئی بھی مناسب سی بات لکھ کر اقبال کے نام سے چلا دیں۔ ہر پڑھنے والا اسے ادب سے پڑھے گا اور ہر سننے والا ادب سے سن لے گا۔ جنہیں اس کے مستند ہونے پہ شک ہو وہ بھی دبکے بیٹھے رہتے ہیں کہ کہیں واقعی کہی گئی بات اقبال کی ہوئی تو ان کے میزان میں جسارت شمار نہ ہو۔
ہم اقبال کے منظرِعام پر آنے والے نت نئے اشعار سے تنگ آئے ہی تھے کہ سوشل میڈیا کے مستند حلقوں میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کی تصاویر گردش کرنے لگیں۔ ان تصویروں میں کئی گھسے پٹے اقوال ِزریں کو اقبال کے سر تھونپ کر سائن بورڈ بنادئے گئے تھے۔ جب میں نے یہ تصاویر اردو لغت بورڈ کے انچارج عقیل عباس جعفری کی وال پہ دیکھیں تو چونک اٹھا۔ بات ایس ایم ایس اور فیس بک تک ہی رہتی تو ٹھیک تھا۔ اب ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے سے یہ حرکت ہوئی تو چپ رہا نہیں گیا۔ آخر کب تک ہر گھِسے پِٹے خیال کو قابلِ ہضم بنانے کے لیے اقبال کی تھالی میں ڈال کر پیش کیا جاتا رہے گا؟ سب سے اہم بات یہ کہ ایک یونیورسٹی میں اس قدر لا علمی کا چلن اور تحقیق یا تنقیدی نقطہ نظرسے اس قدرعدم رغبت پورے ایک مقالے کی متقاضی ہے۔
از راہ تفنن یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد نے اقبال کے من گھڑت اشعار کو کیمپس کے سائن بورڈز پر جگہ دے کر دو عام فہم باتوں کو آفاقیت کا درجہ دیا ہے۔ پہلی تو یہ کہ اس ملک کی نوجوان نسل میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ بذلہ سنجی میں فیصل آباد کا مقابلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔