پرویز امیر علی ہود بھائی
پی بی ایس نیوز آورکے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا کہ در حقیقت امریکہ نے افغانستان کا بیڑا غرق کیا ہے اورپھر بجا طور پر یہ سوال اٹھایاکہ آخر افغانستان پر حملہ کرنے کے پیچھے امریکہ کا مقصد کیا تھا۔ اس کے بعد اُنہوں نے افغان میڈیا کو دیئے گئے دوسرے انٹرویو میں اس بات کی تردید کی کہ پاکستان طالبان کا ترجمان ہے۔ چلئے، یہ تکنیکی اعتبار سے سچ ہے۔۔۔ لیکن اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ یہ صرف امریکہ ہی نہ تھا جس نے افغانستان کا بیڑا کیابلکہ دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے۔
ذرا یاد کیجئے وہ جملہ جو 1970 کی دہائی کے اواخر میں زبان زد عام ہوتا تھا۔ ہم یہ مسلسل سنتے تھے کہ سوویت یونین خلیج فارس کے گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے اور اسی لئے دسمبر 1979 میں اُس نے افغانستان پر حملہ کیاجس کے بعد یہ کہا گیا کہ اب پاکستان اُس کااگلا ہدف ہوگا۔ رونالڈ ریگن نے واویلا کیا کہ شیطانی سلطنت اور اس کے دیوتا، ملحد کمیونسٹ پیش قدمی کر رہے ہیں، انہیں ہر حال میں روکنا ہو گا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس واویلے کا ساتھ دیا اور کہا اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان اور اسلام کو جان لیوا خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
در حقیقت یہ ایک من گھڑت ڈراوا تھا۔ اُس زمانے میں سوویت یونین کی معیشت بیساکھی کے سہارے لنگڑا لنگڑا کر چل ر ہی تھی اور پیش قدمی کی صلاحیت اس میں ہر گز نہ تھی۔ وہ ساحل سمندر تک رسائی کیلئے مزید 800 کلومیٹر آگے کیسے بڑ ھ سکتا؟
یہاں قدرت کی ستم ظریفی بھی ملاحظہ کیجئے کہ جب ’ملحد کمیونسٹوں‘ کا چینی برانڈ بالآخر انہی مطلوبہ گرم پانیوں تک پہنچا تو کوئی آسمان نہیں گرا۔ در حقیقت ان کیلئے بے تاب اور تیار بیٹھے پاکستانیوں نے سرخ قالین بچھایا جس پر چل کر چینی گوادر تک پہنچے۔ جنرل ضیاء کے خوفناک اعلانات کے باوجود اسلام کمیونسٹوں سے محفوظ رہا۔ہاں البتہ بیچارے ایغور مسلمانوں کے بارے ایسا نہیں کہا جا سکتا۔
سوویت حملے کے بعد ہم سب جانتے ہیں، کیا ہوا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ دنیا کے سب سے بڑے خفیہ آپریشن کا مرکز بنا۔ یہاں سے مسلم ممالک کے تربیت یافتہ جنگجو کو دعوت دی گئی کہ وہ ایک عظیم جہاد میں شامل ہو جائیں۔ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے فنڈنگ اور اسلحہ سپلائی کی کثرت کے ساتھ دنیا کا پہلا بین الاقوامی جہاد کا اہتمام کیا اور سی آئی اے کی بھرپور مدد کی۔ سوویت حملے کے ایک دہائی بعد آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل حمید گل نے میڈیا کے سامنے دنیا کو بڑے فخریہ انداز میں جتایا کہ وہ اور اس کے جوان سوویت یونین کو شکست دے چکے ہیں۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان سرد جنگ کے حریفوں کی لڑائی میں امریکی ترغیبات کو ٹھکرا دیتا تو کیا ہوتا۔ اگر پاکستان سوویت یلغار کو روکنے کیلئے مزاحمتی قوت تیارکرنے، اسے مسلح اور منظم کرنے کے بجائے اپنا راستہ لینے دیتا؟ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں قیامت برپا ہے، اس سوال پر غور و خوض ضروری ہے کہ اگر افغانستان میں مداخلت نہ کی جاتی تو کیا ہوتا؟
افغانستان کا ممکنہ منظر نامہ یہ ہوتا کہ افغان کمیونسٹوں کے اپریل 1978 کے ”ثور انقلاب“صرف دو یا تین سال میں آپسی لڑائیوں کی وجہ سے تباہ ہو جاتا۔اس صورت میں زیادہ سے زیادہ چند ہزار افراد ہلاک ہوئے ہوتے۔ وہ حشر نہ ہوتا جو اب ہمارے سامنے ہے یعنی دس سے بیس لاکھ ہلاکتیں اور ملک کی تباہ حالی الگ ہے۔
میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں اس لئے کہ 1978ء میں دو کمیونسٹ پارٹیوں ’خلق‘ اور ’پرچم‘ کو شہری حلقوں سے باہر بہت کم عوامی حمایت حاصل تھی اور ملکی فوج اور پولیس نے بھی صدر داؤد کے خلاف بغاوت کی مخالفت کی۔ اس کے علاوہ دونوں گروپ آپس میں بھی دیوانہ وار لڑے۔ ’پرچم‘ کا سربراہ حفیظ اللہ امین ایک جنونی قاتل بن گیا۔ اس کی حکمرانی صرف تین ماہ تک جاری رہی۔
لیکن افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑا گیااور سب سے پہلے روس نے مداخلت کی۔ اس وقت خلق اور پرچم کے درمیان لڑائی قابو سے باہر ہو چکی تھی لہذا روس نے انقلاب کو بچانے کی خاطر پرچم سے ہی ایک نئے لیڈر ببرک کارمل کو سامنے کیا۔ اس سے امریکہ چوکنا ہو گیا۔ عوامی سطح پر امریکہ اسی موقف کا اعادہ کرتا تھا کہ افغانستان ایسا ملک ہے جس کے زوال سے بہت سے دوسرے ملک متاثر ہوں گے،لیکن حقیقت میں اب اس نے بھانپ لیا تھا کہ روس کو افغانستان میں زچ کیا جا سکتا ہے۔
1985 ء کے لگ بھگ تھکے ماندے سوویت واسی افغانستان چھوڑنے کے لیے تیار تھے۔ ریگن انتظامیہ کے ’بلیڈرز‘ (یہ اصطلاح اقبال احمد کی ایجاد ہے) میں اسسٹنٹ سیکریٹری دفاع رچرڈ پرل جیسے لوگ تھے جنہوں نے افغانستان کے ذریعے روسیوں کو سبق سکھانے کا اعادہ کیا ہوا تھا۔ایسے لوگ واشنگٹن میں سب سے زیادہ بااثر بن گئے اور افغانستان کی افسوسناک صورتحال روس کے گلے پڑ گئی۔ دریں اثنا پاکستان اس اہمیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا جو افغانستان کے باعث اسے ملی، ڈالروں سے بھرے جہاز پاکستان آ رہے تھے،جنرل ضیاء نے انخلا کے لیے مذاکرات کی سوویت یونین کی پیشکش مسترد کر دی۔
فاتح امریکہ سرد جنگ کے اپنے حریف کے پسپا ہونے کے بعد پیچھے ہٹ گیا۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ریگن نے وائٹ ہاؤس میں جن مجاہدین کا گرمجوشی سے استقبال کیا تھا کہ ایک دن اُن کاایک مہلک ترین ’ڈیلٹا ویرینٹ‘ بن جائیگا جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کر یگا۔ اس کے بعد امریکہ نے افغانستان کو ’مہذب‘ ملک بنانے کیلئے اُس پر دوبارہ حملہ کیا اور اُن انتہا پسندوں کو نشانہ بنا یا جو پہلے روس کے خلاف اُس نے استعمال کیا تھا۔ لیکن آج 20 سال بعدوہ مایوسی اور رسوائی کی حالت میں اس خطہ سے جلد از جلد نکل رہا ہے۔ بہت سے لوگ کہیں گے کہ امریکہ کے ساتھ یہی ہونا چاہئے تھا اور شائد انصاف کا تقاضہ بھی یہی تھا۔
لیکن امریکہ کی جلد بازی نے ایک بدترین صورتحال کو جنم دیا ہے۔ جیسے جیسے طالبان ایک کے بعد ایک علاقے پر قبضہ کرتے گئے، امن مذاکرات کی امید ختم ہو گئی۔ شہروں پر ان کے قبضے کے بعد یہ توقع کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ معاملات 1996 سے مختلف ہوں گے جب کابل کے کھمبوں کے سے مخالفین کی لاشیں لٹکا دی گئی تھیں،مردوں سے زبردستی داڑھی رکھوائی اور نماز پڑھائی جاتی، عورتوں کو برقعوں میں دھکیل دیا گیا اور لڑکیوں کی تعلیم روک دی گئی۔
روس اور امریکہ بنیادی طور پر افغان سانحہ کے ذمہ دار ہیں۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس روندی جاتی ہے،تاہم پاکستان کو بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کی تیار کردہ پاکستان کی افغان پالیسی یکطرفہ طور پر بھارت کے خلاف تذویراتی گہرائی پر مرکوزکی گئی۔ کئی دہائیوں تک طالبان کی قیادت، جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو پاکستان نے رہائش، صحت اور تحفظ فراہم کیا۔ جب ہم اس کی تردید کرتے ہیں تو کوئی بھی ہم پر یقین نہیں کرتا۔
اگر افغانستان کو کبھی ایک جدید ملک بننا ہے تو اس پر ایک ایسے آئین کے تحت حکمرانی ہونی چاہیے جس میں اسلامی بنیادی اقدار کے ساتھ اظہار رائے، انتخابات، طاقت کی تقسیم اور انسانی حقوق کی آزادی ہو۔ جن وحشی لوگوں نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا ہے وہ ملک کو ایک تباہی سے دوسری تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ دسمبر 2014 ء میں آرمی پبلک سکول میں بچوں کو ذبح کرنے والے پاکستانی طالبان اور افغان طالبان نظریاتی بھائی ہیں۔ ایک کابل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے (اور ممکنہ طور پر کر بھی لے گا) جبکہ دوسرا اسلام آباد پر نظریں جمائے بیٹھا ہے مگر ان کی دہشت گردانہ کارروائیاں بھی جاری رہیں گی۔ طالبان کے کابل پر دوبارہ قبضے کی بجائے افغانستان میں آئین پر مبنی جمہوریت ہی پاکستان کے طویل مدتی مفادات کیلئے مفید ثابت ہو گی۔
بشکریہ:ڈان