لاہور (جدوجہد رپورٹ) طالبان قیادت کے وعدوں اور اعلانات کے برخلاف افغانستان میں طالبان کی جانب سے ہلاکتوں، حراستوں اور دھمکیوں کے شواہد پورے افغانستان سے سامنے آ رہے ہیں۔
گارڈین کے مطابق طالبان نے گھر گھر جا کر سابقہ افغان حکومت یا مغربی ممالک کے ساتھ کام کرنے والوں کی تلاشی کے ساتھ ساتھ طالبان جنگجوؤں کی جانب سے گزشتہ ماہ ایک گاؤں پر قبضہ کرنے کے بعد نسلی اقلیت کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محققین نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے صوبہ غزنی میں عینی شاہدین سے بات کی ہے جنہوں نے بتایا کہ طالبان نے جولائی میں منڈرخت گاؤں میں ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کو قتل کیا جن میں سے 6 کو گولی ماری گئی جبکہ 3 افراد کو تشدد کر کے قتل کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی کہا ہے کہ افغانستان کے بہت سے علاقوں میں موبائل سروس بند کر دی گئی ہے تاکہ طالبان کی جانب سے کی جانیوالی ہلاکتوں کی تصاویر کو شائع ہونے سے روکا جا سکے۔ کئی شہروں میں مظاہرین کو ہلاک کئے جانے کی اطلاعات ہیں اور کابل ہوائی اڈے کے اردگرد موجود ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں پر تشدد اور دھمکیاں دینے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
امریکی حکومت نے کہا ہے کہ 50 سے 65 ہزار افغانوں کو نئی حکومت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ نیٹو کے ایک عہدیدار کے مطابق اب تک تقریباً 18000 افغان افراد کو ہوائی جہازوں کے ذریعے سے ملک سے نکالا جا چکا ہے، مزید افراد کو بھی نکالنے کیلئے کوششیں تیز کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق مزید 6000 افراد کو انخلا کیلئے کلیئر کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں انہیں نکالا جائیگا۔