یاسمین افغان
پچھلے 20 سالوں کے دوران افغانستان کی سب سے بڑی کامیابی اس کے ذرائع ابلاغ اور بڑی حد تک اظہار رائے کی آزادی تھی۔ افغانستان میں میڈیا سے متعلق اس ریجن کے بہترین قوانین موجود ہیں۔
افغانستان میں ٹیلی ویژن چینلوں حکومت کے خلاف طنز یہ پروگرامات چلا رہے تھے اور ان پروگراموں میں سے ایک انتہائی مقبول پروگرام ”شبک خاندہ“ کے ناظرین،سب کام چھوڑ کر پروگرام دیکھنے کے لیے جمعہ کی رات اپنے ٹیلی ویژن کا رخ کرتے تھے۔
سب کے لئے عام معافی کا اعلان کرنے کے باوجود طالبان نے مقامی صحافیوں اور ان کے کیمرہ مینوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ ایک مقامی ٹیلی ویژن کی رپورٹر حسیبہ اتکپال نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل میں لکھا کہ ”ذبیح اللہ مجاہد کی پریس کانفرنس کے بعد میں پر امید تھی لیکن اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ بیانات اور عمل کے درمیان فرق ہے۔ آج طالبان نے میرے ساتھی کو مارا اور ہوائی فائرنگ کی۔“
2001ء سے طالبان افغانستان میں صحافیوں اور میڈیا کے ارکان کے قتل میں ملوث رہے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد افغان میڈیا کے ساتھ اپنی پہلی بیٹھک میں بالکل اسی جگہ بیٹھے تھے جہاں افغان حکومت کے میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے سربراہ دعویٰ خان مینپال بیٹھتے تھے، انہیں 6 اگست 2021ء کو طالبان نے قتل کر دیا تھا اور ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا تھا کہ اس قتل کے پیچھے طالبان کا ہاتھ ہے۔
مرزیا (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ”یہ ستم ظریفی ہے کہ وہ شخص جس نے میڈیا کے سربراہ کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس قتل کی معلومات بھی ان کے ذریعہ سے دی گئی تھی، اب خود میڈیا سربراہ کی جگہ پر بیٹھا ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ افغانستان کہاں جا رہا ہے۔“
گزشتہ کچھ دنوں سے کابل میں رہنے والے مقامی صحافیوں نے کم سے کم ٹویٹ کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ طالبان بدلہ لیں گے۔ ٹویٹر ہینڈلز جن کی میں ذاتی طور پر پیروی کررہی ہوں وہ اب یا تو ختم ہو چکے ہیں یا پھر تین چار دن سے انہوں نے کوئی نئی ٹویٹ نہیں کی۔ بہت سے صحافی روپوش ہو چکے ہیں اگرچہ کچھ مناظر میں ابھرے لیکن زیادہ تر لو پروفائل رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک مقامی صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”دروازے پر ہر دستک میرے دل کو ڈبو دیتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھے مارنے آئے ہیں۔“
وہ مزید کہتی ہیں کہ”افغانستان تباہ ہو چکا ہے۔ مستقبل ویران اور تاریک ہے۔ مستقبل کی کوئی امید نہیں۔“
افغان میڈیا طالبان کے خصوصی نشانے پر ہے اور وہ سافٹ ٹارگٹ بن چکا ہے۔ اس وقت خبروں کی کوریج کرنے پر انہیں مارا پیٹا گیا اور ذلیل کیا گیا اور اس سے وہ مزید خوفزدہ ہوئے ہیں۔
ایک مقامی میڈیا ادارے نے بتایا ہے کہ طالبان نے یوم آزادی پر مظاہرے اور جشن کی کوریج کرنے پر کابل میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک اور مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ ”ہم ان پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں؟ یہ فلم کی شروعات ہے، مجھے یقین ہے کہ اس کا اختتام ہم سب آزاد اور منصفانہ صحافیوں کے لیے خوفناک ہوگا۔“