فاروق سلہریا
تقریباً ہر سال مختلف عالمی ادارے مختلف حوالوں سے دنیا بھر کے ممالک کی عالمی درجہ بندی جاری کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ہم پاکستان کی عالمی درجہ بندی کا جائزہ لیں گے۔
بدعنوان ممالک میں پاکستان کا نمبر 63واں ہے
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہر سال بدعنوان ترین اور شفاف ترین ملکوں کی فہرست جاری کرتی ہے۔ اس رپورٹ کو کرپشن پرسیپشن انڈیکس (Corruption Perception Index) کہا جاتا ہے۔”کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2018ء“ کے مطابق شفافیت کے لحاظ سے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 117 ہے [1]۔ یعنی پاکستان کا شمار زیادہ بدعنوان ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان کا سکور 100 میں سے 33 ہے۔ 100 کے قریب سکور کا مطلب زیادہ شفافیت جبکہ 0 کے قریب سکور کر مطلب زیادہ بدعنوانی ہوتا ہے۔
یاد رہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بد عنوان ممالک کے حوالے سے دو فہرستیں جاری کرتی ہے۔ ایک کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) جس میں ایسے ملکوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے جو رشوت لینے کے حوالے سے بدترین یا شفاف قرار پاتے ہیں۔ دوسری فہرست کو برائب پیئرز انڈیکس (Bribe Payers Index) کہا جاتا ہے۔ اس فہرست میں رشوت دینے والے ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ثانی الذکر فہرست میں امیر ممالک کو ہی شامل کیا جاتا ہے لہٰذا وہاں پاکستان کو سروے میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔
یہ بات بھی واضح کر دی جائے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے طریقہ تحقیق پر ماہرین کی کافی تنقید موجود ہے مگر اس بحث میں فی الحال جانا ممکن نہیں۔ اس مضمون کے پس منظر میں یہ کہنا کافی ہے کہ پاکستان کے حکمران اور میڈیا ہی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کو خوب اچھالتے آئے ہیں لہٰذا یہاں ہم حکمرانوں کو محض آئینہ دکھا رہے ہیں۔
آزادی صحافت کے لحاظ سے پاکستان38 واں بدترین ملک ہے
رپورٹرز سانز فرنٹیئرز (Reporters sans frontieres) صحافتی آزادیوں کے حوالے سے سالانہ رپورٹ جاری کرتی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری کے ادھورے انٹرویو کے بعد ایک مرتبہ پھر صحافتی آزادیاں زیرِ ِ بحث ہیں اس لئے اس موضوع پر پاکستان کی درجہ بندی دلچسپی کی حامل ہے۔ اس سال رپورٹرز سانز فرنٹیئرز نے جو درجہ بندی جاری کی ہے اس کے مطابق کے 180 ممالک کے جائزے میں پاکستان کا نمبر 142واں ہے۔ اس فہرست میں افغانستان121 ویں درجے پر ہے۔ گویا پاکستان صحافیوں کے لئے دنیا میں 38واں بد ترین ملک ہے [2]۔
صنفی امتیاز میں دوسرا نمبر
ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018ء (Global Gender Gap Report 2018) میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کسی ملک میں صنف یا جنس کے حوالے سے کس حد تک امتیاز برتا جاتا ہے۔اس حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم نے پچھلے سال رپورٹ جاری کی تھی۔ اس کے مطابق صنفی امتیاز کے حوالے سے پاکستان دوسرا بد ترین ملک ہے۔ اس درجہ بندی میں 149 ممالک کا جائزہ لیا گیا۔ پاکستان کا نمبر 148واں تھا۔ بنگلہ دیش اس درجہ بندی میں 48ویں نمبر پر تھا [3]۔
انسانی ترقی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 150واں ہے
کسی بھی ملک میں ترقی کو ماپنے کے پیمانے پر ایک بحث رہی ہے۔ یہ بحث آج بھی جاری ہے مگر عمومی طور پر اقوام ِمتحدہ کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) کو ایک اہم پیمانہ مانا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تازہ ترین انڈیکس کے مطابق ترقی کے لحاظ سے 189 ممالک میں پاکستان کا نمبر 150واں ہے [4]۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے کم و بیش اسی جگہ پہ کھڑا ہے۔
ترقی پسند سکالرز کا تو ماننا ہے کہ غربت نہیں عدم مساوات کو ناپنا چاہئے کیونکہ ترقی ایک نسبتی (Relative) شے ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیسویں صدی میں دنیا میں سب سے زیادہ اوسط عمر برطانیہ میں تھی۔ برطانیہ دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور وہاں اوسط عمر چالیس سال سے کچھ اوپر تھی۔ آج افغانستان میں بھی اوسط عمر چالیس سے اوپر ہے۔ افغانستان دنیا کا غریب ترین ملک ہے اور برطانیہ میں اوسط عمر 80 سال کے قریب پہنچ رہی ہے۔ اس نسبتی حوالے سے دیکھیں تو پاکستان میں ترقی کی رفتار بھارت اور بنگلہ دیش دونوں سے کم تھی۔ اگر خطے کی یہ صورتحال ہے تو عالمی سطح پر کیا صورتحال ہو گی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
پانچواں خطرناک ترین ملک
گلوبل ٹیرر ازم رپورٹ 2018ء کے مطابق پاکستان2017 ء میں دہشت گردی کے شکار ممالک میں پانچویں نمبر پر تھا[5]۔ ممکن ہے اس درجہ بندی میں آئندہ گلوبل ٹیرر ازم رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی بہتر ہو جائے کیونکہ دہشت گردی کے واقعات میں کچھ کمی آئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے ان واقعات میں اضافہ ہو جائے۔ موجودہ ’امن‘ گاہے بگاہے خود کش حملوں کا شکار تو ہوتا ہی ہے‘ ملک میں ابھی ایسے عناصر اور حکومتی حکمت عملیاں موجود ہیں جن کے نتیجے میں دہشت گردی واپس آ سکتی ہے۔
اوپر چند فہرستوں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو مزید طوالت دی جا سکتی ہے۔ بد قسمتی سے اکثر درجہ بندیوں میں پاکستان کی کارکردگی جنوبی ایشیا میں بھی پسماندہ ترین سطح پر پائی جاتی ہے۔
اختتامیہ
ہر ملک کا حکمران طبقہ اپنے شہریوں میں ایک طرح کا قومی تفاخر ابھارنے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جن ملکوں میں قومی سوال طے ہو چکا وہاں اتنی شد و مد سے شان و شوکت کے جھوٹے دعوے اور مظاہرے نہیں کئے جاتے۔ عموماً تیسری دنیا کے ممالک جو بطور قومی ریاست کالونیل ازم کے نتیجے میں وجود میں آئے اور جہاں قومی سوال پر تنازعے موجود ہیں، وہاں یہ عمل اپنی خام شکل میں دیکھنے کو ملے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایسے ممالک میں حکمران طبقہ ترقی دینے میں ناکام رہا ہے۔ جب عوام اپنے جمہوری، معاشی، انسانی اور ثقافتی حقوق کی بات کرتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرایا جاتا ہے کہ ان باتوں سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ جب حکمرانوں کے اللوں تللوں پر انگلی اٹھائی جائے تو ملک کی جھوٹی شان و شوکت کے قصے سنائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی یہی کچھ کیا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ساتویں ایٹمی قوت ہیں۔ ہمارے خفیہ ادارے دنیا میں بہترین ہیں۔ اے لیول اور او لیول میں تیس تیس اور چالیس چالیس ’As‘ لینے والے بچوں کے بارے میں بریکنگ نیوز دی جاتی ہیں۔ بیرون ِ ملک مقیم پاکستانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے اگر وہ کوئی انفرادی کامیابی حاصل کریں۔ پانی سے گاڑی چلانے والے نابغہ روزگار سائنس دان راتوں رات ہیرو بنا دئیے جاتے ہیں۔ جھوٹی شان و شوکت اور انفرادی کامیابیوں کے ان قصوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوٹ کھسوٹ کے نظام، استحصال، عدم ترقی اور جبر کی بات نہ کی جائے اور بتایا جائے کہ چند لوگوں کی ترقی سب کی ترقی ہے کیونکہ ہم سب ایک ہیں۔ ہم سب اس دھرتی کی اولاد ہیں۔ یعنی دھرتی سے لوگوں کی محبت کا طبقاتی استحصال کیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا رپورٹ کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ ایک وہ جو مذکورہ بالا درجہ بندیوں میں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جو پاکستان کے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور نوکر شاہی نے بنایا ہے۔ اس پاکستان پر حکمران طبقے کو شرم آنی چاہئے۔ ایک پاکستان ہے اس کے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، انقلابی شاعروں، باغی ادیبوں اور حریت فکر کے مجاہدوں کا۔ اس دوسرے پاکستان کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ یہ درجہ بندیاں انکی وجہ سے نہیں ہیں۔ اکثریت کی تاریخ تو ایک شاندار اور قابلِ فخر تاریخ ہے۔ یہ تاریخ ہے انقلابی جدوجہد، مساوات، حقوق اور ٹریڈ یونین سازی کے لئے جبر سے ٹکرانے کی تاریخ۔ اس اکثریت کا مطالبہ ہے کہ ہمیں چند لوگوں کی ترقی نہیں چاہئے اور اگر حکمرانوں کو پاکستان کی عالمی درجہ بندی کی اتنی فکر ہے تو ایچ ڈی آئی کو بہتر بنایا جائے، دہشت گردی کو جنم دینے والے حالات کا قلع قمع کیا جائے، طاقت اور دولت کی تقسیم کی جائے تا کہ بد عنوانی کا خاتمہ ہو۔ مگر کیا ان باتوں کی توقع موجودہ حکمران طبقے سے کی جا سکتی ہے؟
پاکستان کی عالمی درجہ بندی تب ہی بہتر ہو گی جب یہاں سیاسی، معاشی اور سماجی برابری ہو گی۔ پاکستان کی بدنامی کا راگ الاپنے والے اپنے طبقاتی گریبان میں جھانکیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔