قیصرعباس
گزشتہ دنوں خلیجی ریاست بحرین کے ایک عظیم الشان سٹیج پر بڑے اہتمام سے فلسطینیوں کے تابناک مستقبل پر ایک نئے کھیل کا آغازاور اختتام ہوا۔ دو دنوں تک جاری رہنے والے اس ڈرامے کا افتتاح امریکی صدر کے داماد جیریڈ کشنر نے بڑے تزک و احتشام سے کیاتھااور وہی اس کھیل کے ہدایت کار بھی تھے۔
اس ڈرامے کے اداکاروں میں جانے پہچانے امریکی اتحادی یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیامگر لبنان اور شام کے علاوہ کئی عرب ریاستیں کھیل میں شامل نہیں تھیں۔ ان کے علاوہ شرکا میں اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے تاجر، بین الاقوامی کمپنیاں اورکئی ہم خیال دانشوراور صحافی بھی شامل تھے۔ حسب توقع فلسطین کی انتظامیہ، جو اس کے مقاصد سے واقف تھی، نے اس ڈرامے میں شامل ہونے سے صاف انکارکر دیاتھا لیکن اسرائیل کی غیرحاضری با قاعدہ منصوبے کا حصہ تھی تاکہ اس کاروائی کو غیرجانبداری کا ایک مثالی نمونہ ثابت کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
ڈرامے کا عنوان تھا ”امن سے خوشحالی تک: فلسطین اورمشرق وسطیٰ کا نیا تصور۔“ غورطلب بات یہ ہے کہ منصوبہ جس خطے کی ترقی کے لئے تشکیل دیا جا رہاہے وہ اس کے اہم ممالک کی شرکت کے بغیر کس طرح کامیاب تصور کیاجاسکتاہے اور اس کا کیا جواز ہے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے جس کے کئی اور اہم پہلو بھی ہیں۔
ورکشاپ میں پیش کیے گئے منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیاتھا۔ چالیس صفحات پر مشتمل پہلے حصے میں مقاصد اورمنصوبے کے اہم نکات شامل تھے جن میں اقتصادی ترقی، فلسطینی عوام کو بااختیار بنانے کے اقدامات اور فلسطین کے حق خودارادیت کاتذکرہ کیاگیا تھا۔ دوسرے حصے میں فلسطین کے لئے آ ئندہ 10 سالوں کے دوران اقتصادی منصوبوں کی مالیت، اعدادو شمار، قرضے اور مزید تفصیلات شامل تھیں۔ مجموعی طورپر 199 میں سے 167 منصوبوں کا تعلق فلسطین سے تھا اور باقی لبنان، اردن اور مصر میں مکمل کیے جانے تھے۔ فلسطینی منصوبوں کے لئے 27.8 بلین ڈالر اور باقی کے لئے 22.2 بلین کی رقم مختص کی گئی۔
فلسطین کے زیادہ تر منصوبوں کا تعلق افرادی تربیت، زراعت، مینوفیکچرنگ، رہائشی منصوبوں اور سیاحت سے تھا۔ خوبصورت لفاظی اور زبان دانی کا یہ نادر نمونہ ویسے تو نہایت موثر نظر آتاہے مگراصل حقیقت کچھ اور ہے۔
اس سے پہلے بھی فلسطین کے شاندار مستقبل کے دعووں کے ساتھ کئی منصوبے پیش کیے جاچکے ہیں جوبد قسمتی سے تحقیق اور دستاویزات کی لمبی فہرست سے آگے نہیں جاسکے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں اس قسم کے تقریباً چار منصوبے پیش کیے گئے جو اس نئے پلان سے ہی ملتے جلتے ہیں۔ 2014ء میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسی طرز کاایک منصوبہ پیش کیا تھا۔اس سے پہلے 2011ء میں بھی برطانوی منصوبہ، 2007ء میں فلسطینی پلان اور پھر 2005ء میں رینڈ کارپوریشن کا منصوبہ بھی سامنے آیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بحرین پلان پرانی دستاویزات ہی کانیا چربہ ہے۔ امریکہ کے ٹرینٹی کالج (Trinity College) میں اقتصادیات کے پروفیسر ابراہیم شکاکی نے اس نئے پلان کے دو بڑے نقائص گنوائے ہیں: ”اول یہ پرانے منصوبوں ہی کی نئی شکل ہے اور دوئم یہ کہ اس میں فلسطین کی زمینی اور سیاسی حقیقتوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ دستاویز میں اگرچہ فلسطین کا ذکر 301 مرتبہ کیا گیا ہے لیکن فلسطینی اقتدار، ریاست یاعلاقے تک کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔“
ادھر اسرائیل اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ بھی اس منصوبے کے مقاصد سے پرامید نہیں نظر آتے۔ امریکی اخبار فنانشل ٹائمز نے27 جون کی اشاعت میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ”بحرین ورکشاپ میں صدر ٹرمپ کے مشیرعلاقے کے اہم مسائل کو شامل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں جس میں اسرائیل اور فلسطین کی مجوزہ ریاست کی سرحدکاتعین، فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنے گھروں کو واپسی اور ان کے حقوق اور عیسائیوں، مسلمانوں اور یہودیوں کے مذہبی مقاما ت کی حیثیت جیسے نازک مسائل شامل ہیں۔“
فلسطین کی رہنما حنان اشروی نے تو پہلے ہی اس سکیم کو فلسطین کے اصل مسائل نظرانداز کرنے کی ایک اور کوشش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”بحرین میں ہونے والی ورکشاپ اصل مسئلے سے انحراف کرنے کی کوشش کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔“ اسرائیل کی ایک جانی پہچانی صحافی نے تو یہاں تک کہا کہ”یہ پورا منصوبہ ایک ایسی عجیب و غریب کشتی کی طرح ہے جو صرف صحرامیں سفر کرسکتی ہے۔“
مبصرین کا خیال ہے کہ بحرین ورکشاپ دراصل فلسطینیوں کی اقتصادی حالت کو بہترکرنے کے بجائے انہیں اسرائیل کا محتاج بنا نے کا ایک نیا منصو بہ ہے جس میں انہیں اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہونے کے تمام انتظامات کیے گئے ہیں۔ صنعتی پارکوں کے قیام کی ایک تجویز بھی پیش کی گئی ہے جن میں فلسطینیوں کو کم اجرتوں پر اسرائیل کے مزدوروں کا کردار دیا گیاہے۔ اس کے علاوہ جان بوجھ کر تمام ترقیاتی منصوبوں میں فلسطینی انتظامیہ کے بجائے نجی اداروں کو شامل کیاگیا ہے تاکہ حق خودارادیت اور سیاسی آزادی کا سوال اٹھانے والا کوئی نہ ہو۔ اس طرح فلسطین کے سیاسی، اقتصادی اور جمہوری حقوق کو بالائے طاق رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
نہ صرف یہ کہ بحرین پلان علاقے کے پسماندہ فلسطینی باسیوں کے مسائل سے ہی منکر ہے بلکہ اس منصوبے میں کسی فلسطینی ماہر اورانتظامیہ کو بھی اعتماد میں نہیں لیاگیا۔ اس صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس علاقے کے اقتصادی مستقبل کی بات کی جا رہی ہواور وہا ں کے سیاسی مسائل اور عوام کو درپیش اقتصادی مشکلات کا کوئی تجزیہ یا تذکرہ تک اس میں شامل نہ ہو تواس کی نیت پر کس طرح بھروسہ کیا جاسکتاہے۔
اس ساری اسکیم کا ایک بین الاقوامی اور سامراجی پہلو بھی ہے۔ ویسے تو امریکی انتظامیہ ہمیشہ سے اسرائیل کی ہمنوا رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ کے انتخاب کے بعد اس کے سامراجی ہتھکنڈے کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ایک طرف تو امریکہ فلسطین سے مذاکرات کا مطالبہ کر رہا ہے او ر دوسری طرف کھل کر اسرائیل کے ان اقدامات کی حمایت بھی جاری ہے جن کے تحت فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر تسلط کو قانونی شکل دی جا رہی ہے۔ یروشلم کو باقاعدہ طورپر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا گیا ہے اور واشنگٹن میں فلسطین کے دفتر کو بند کر دیا گیا ہے۔
مجمو عی طور پر یہ منصوبہ اسرائیلی تسلط کے تحت فلسطین کے اصل باشندوں کے استحصال کو مزید مستحکم بنانے کی ایک اورسازش ہے۔ فلسطین کا اصل المیہ یہ ہے کہ ہزاروں فلسطینی باشندوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کرکے انہیں آمدنی سے محروم کردیاگیا ہے۔ اس صورت حال میں علاقے کے باشندے اپنے ہی گھروں اورزمینوں سے محروم ہوکر یہودی آبادی کے رحم وکرم پر جینے پر مجبور کردئیے گئے ہیں۔ آج فلسطین کا کوئی تجزیہ اس کے اصل باشندوں اوراسرائیلی حکومت کے در میان اقتصادی اور سیاسی تناؤ کے بغیر نا مکمل ہے اور جب تک ان مسائل کی طرف دھیان نہیں دیا جائے گا‘ اقتصادی ترقی کاکوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک خلیجی ریاست کے سٹیج پر کھیلے گئے اس نئے ڈرامے کاانجام بھی ماضی کے ڈراموں سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ یا پھر اس کی تخلیق بھی اسی مقصد کے لئے کی گئی تھی اور اصل مقاصد کچھ اور ہی تھے؟ کہا جا رہاہے کہ اس عجیب و غریب سکیم کے ذریعے اسرائیل نے اپنے عرب اتحادیوں سے تعلقات کو اورمضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ ا سرائیل کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ عالمی سامراج کے علاقائی گماشتوں سے اس کے تعلقات بہتر ہو ں تاکہ مشرق وسطیٰ میں اس کے ریاستی تحفظ کو مزید مضبوط کیا جائے۔ لیکن اندرونی طورپرفلسطینیوں پرسیاسی تشددا ور اقتصادی استحصال جاری رکھا جائے۔
اگر کسی کو اس پوری کاروائی کے پیچھے اسرائیل کے ان مقاصد پر شک ہے تو بحرین ورکشاپ میں شامل اس تقریر پر غور کرے جس میں فلسطین کے حق خوداردیت اورانسانی حقوق کا ذکر تک شامل نہیں ہے:
”اسرائیل تاریخی لحاظ سے اس پورے خطے کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے اور یہودی مذہب کے پیروکار وں کی ہمارے درمیان ایک اہم جگہ ہے… اگر ہم اس ورکشاپ پر سنجیدگی سے غور کریں تو یہ اس علاقے میں ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے جس کی اہمیت کیمپ ڈیوڈ اور مرحوم انور سادات کی کوششوں سے کم نہیں ہے۔ “
یقین کیجئے یہ تقریر کسی امریکی یا اسرائیلی نمائندے کی نہیں بلکہ بحرین کے وزیرخارجہ خالد بن احمد الخلیفہ کی ہے جو انہوں نے تقریب میں مندوبین کا خیرمقدم کرتے ہوئے کی!
بک چکے ہیں تمام دوست مرے
اتنے ارزان بکے ملال یہ ہے!
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔