لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان جنگجوؤں نے ایک صحافی کو بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس سے موبائل فون، کیمرے اوردیگر تکنیکی سامان بھی چھین لیاہے۔
یہ واقعہ جمعرات کی صبح 10 اور 11 بجے کے درمیان پیش آیا جب ایک بکتر بند لینڈ کروز سے نکلنے والے مسلح جنگجوؤں نے اچانک ’طلوع نیوز‘ کے رپورٹر زیار خان یاد پر حملہ کر دیا اور انہیں بندوقوں کے بٹ مار کر زخمی کیا اور ان کے پاس موجود سامان چھین کر لے گئے۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر زیار خان یاد کی موت کی خبر وائرل ہو گئی تھی۔ تاہم کچھ ہی وقت کے بعد زیارخان نے ٹویٹ کرتے ہوئے اپنے زندہ ہونے کی تصدیق کر دی۔
طالبان کی جانب سے ان کے فون پر کال کرنے والے رشتہ داروں اور دوستوں سے متاثرہ صحافی کے گھر کا پتہ پوچھا جا رہا ہے، طالبان حکام کو شکایت درج کروانے کے باوجود ابھی تک کارروائی نہ کئے جانے پر تشویش کا اظہارکیا جا رہا ہے۔
زیار خان یاد کا کہنا تھا کہ ”رپورٹنگ کے دوران مجھے کابل شہر میں طالبان نے مارا پیٹا، کیمرے، تکنیکی سامان اور میرا ذاتی موبائل فون بھی چھین لیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے میری موت کی خبر پھیلائی جو کہ جھوٹی ہے۔ طالبان بکتر بند لینڈ کروزر سے نکلے اور مجھے بندوقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔“
ایک اور ٹویٹ میں انکا کہنا تھا کہ ”میں ابھی تک نہیں جانتا کہ انہوں نے ایسا سلوک کیوں کیا اور اچانک مجھ پر حملہ کیوں کیا۔ یہ مسئلہ طالبان رہنماؤں سے شیئر کیا گیا ہے، تاہم مجرموں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا، جو کہ آزادی اظہار رائے کیلئے سنگین خطرہ ہے۔“
واقع کے 6 سے 7 گھنٹے بعد زیار خان یاد نے ایک اور ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”ابھی تک مجھے اپنا موبائل، کیمرہ اور دیگر تکنیکی سامان نہیں ملا، طالبان نے میرا فون کھلا چھوڑ رکھا ہے اور میرے خاندان اور دوستوں کی فون کالزلے رہے ہیں اور ہر کال کرنے والے سے میرے گھر کا پتہ پوچھا جا رہا ہے، میں اس صورتحال سے پریشان ہوں۔“
ادھر ہیومن رائٹس واچ اور دیگر صحافتی تنظیموں نے طلوع نیوز کے صحافی اور کیمرہ پرسن پر تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی افغانستان میں گزشتہ 20 سالوں کی کامیابی ہے، جسے چھینا نہیں جانا چاہیے۔ دریں اثنا پاکستانی میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد کابل پہنچ کر طالبان بارے مثبت رپورٹنگ میں مشغول ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین تنقید کر رہے ہیں۔