دنیا

کیا طالبان سد ھر گئے ہیں؟

پرویز امیر علی ہودبھائی

کابل فتح کرنے کے بعد طالبان کی خواہش ہے کہ انہیں حکمران سمجھا جائے، محض ایک مذہبی جنگجو ملیشیا نہیں۔ اپنے آپ کو، عالمی سطح اور اندرون ملک، جائز حکمران کے طور پر تسلیم کروانے کے لئے ہنوز بند کمروں میں اجلاس اور مذاکرات جاری ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت تشکیل دی جا سکے جس میں طالبان کے علاوہ دیگر قوتیں بھی شامل ہوں۔

کیا یہ کوششیں کامیاب ہو سکیں گی؟ ان افغان نوجوانوں کا کیا بنے گا جو شہری ثقافت و انٹرنیٹ کے عادی ہو چکے ہیں اورساتویں نہیں، اکیسویں صدی میں رہنا چاہتے ہیں؟ کچھ دیر پہلے ہی ان سے یہ سہولت چھین لی گئی تھی۔

ملا عمر کی قیادت میں طالبان کے گذشتہ دور (1996-2001ء)میں ساری توجہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے نفاذ پر تھی۔ طالبان کی تعلیم و تربیت جن پاکستانی مدارس میں ہوئی وہاں انہوں نے یہ سیکھا کہ اس آسمانی ہدایت کا مطلب ہے کہ مذہبی پولیس بن کر لوگوں کے اخلاقیات سیدھے کرو۔ اس کے برعکس لبرل مذہبی علما کے بقول امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مطلب ہے کہ اہل ایمان اپنے نفس پر قابو پاتے ہوئے ہدایت کے راستے پر چلیں۔

ملا عمر کے دور میں طالبان نے اس توجیہہ کو سرے سے رد کر دیا۔ انہوں نے زنا کاروں کو سنگسار کیا، چوری کرنے پر ہاتھ کاٹے، سر عام کوڑے مارے، لڑکیوں کے سکول بند کر دئیے، عورتوں کے گھر سے نکلنے کو بے حد محدود کر دیا، بامیان میں بدھا کے دو ہزار سال پرانے مجسمے کو گرا دیا۔ پرانی افغان نسل نے تو کبھی ایسے واقعات کا سنا بھی نہ ہو گا۔

بدلے ہوئے طالبان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اس بار امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی توجیہہ و تشریح اتنی سخت نہیں ہو گی۔ کیا عام طالبان بھی اس سے متفق ہوں گے؟ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں البتہ اس جنگجو طالبان کے رہنما، جو دہائیوں سے غیر ملکی امداد اور بھتوں پر گزارا کر رہے تھے، خوب سمجھتے ہیں کہ معاشی ضرورتیں تبدیلی کا تقاضہ کر رہی ہیں۔

یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ جنہیں دوحہ کے پر آسائش ہوٹلوں یا کوئٹہ اور پشاور کے بنگلوں کی عادت پڑ چکی ہو ان کے لئے مشکل ہے کہ وہ ان پہاڑی دیہاتوں میں واپس چلے جائیں جہاں سے انہوں نے باہر سے آئے حملہ آور کے خلاف لڑائی لڑی۔ سچ تو یہ ہے کہ اب وہ اس اچھی زندگی کے متمنی ہیں جو ان کے دشمن کی ایجاد ہے۔ ایک دن آئے گا کہ یہی طالبان یا شائد ان کی اگلی نسل اپنے بچوں کو پاکستان یا افغانستان میں پھیلے مدرسوں کی بجائے معمول کے اسکولوں میں بھیجیں گے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ امداد آتی رہے۔ اس سے بھی اہم یہ بات کہ افغان مٹی کے نیچے کھربوں ڈالر کی معدنیات دفن ہیں۔ ان معدنیات کو نکالنے کے لئے تکنیک اور تنظیم دونوں باہر سے ہی آئیں گے۔ بہت سے ممالک، بالخصوص روس اور چین، ان معدنی ذخائر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ علاقائی سیاست کے داؤ پیچ اور کئی طرح کی سودے بازیاں سامنے آئیں گی۔

اس سارے کھیل میں پاکستان ایک اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ گو چین والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ہل جل کرنے والی چیز کو کھا جاتے ہیں مگر پرانی طرز کے طالبان ان سے بھی ہضم نہیں ہوں گے۔ زن ژیانگ بد ہضمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ طالبان کے پرانے اتحادی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، کو یہ فکر ہے کہ کہیں طالبان کی انتہا پسندی ان تک نہ پہنچ جائے کہ ان دنوں وہ سماجی اصلاحات کی جانب مائل ہیں۔ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو بطور ثالث قبول کیا جا سکتا ہے کیونکہ نیا پاکستان بنانے والا رہنما اور ”نیا طالبان“ (یہ اصطلاح روزنامہ ڈان کے کالم نگار نیاز مرتضیٰ نے متعارف کرائی ہے) نظریاتی لحاظ سے ایک ہی ہیں۔ دونوں ہی مغربی لباس، تعلیم اور زبان کے خلاف ہیں۔ دونوں شلوار قمیض یا پگڑی جیسی علامتی چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ دونوں کے نزدیک اخلاقیات کا پیمانہ روزہ اور نماز ہیں۔ کابل پر طالبان کے قبضے پر عمران خان اپنی خوشی کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کا کہنا ہے: ”افغانستان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں“۔

نیا ڈھانچہ تشکیل دینے کے لئے ”نیا طالبان“ ظاہر ہے ان قوتوں کی طرف رجوع کرے گا جنہوں نے اسے کامیابی دلائی۔ ہاں مگر تھوڑی احتیاط بھی برتی جائے گی۔ چاہے عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ طالبان ایسے لوگوں سے تعلق قائم رکھیں جو انہیں معلوم ہے کہ منافقت سے کام لیتے ہیں لیکن طالبان خود منافق نہیں ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے ساتھیوں کو گونتانامو بے کس نے پہنچایا۔ کچھ تو ابھی تک وہاں سے نہیں لوٹے۔

جنرل مشرف نے اپنے دور حکومت میں جو کتاب لکھی، اس کے بیک کور (Back Cover) پر درج ہے: ”672 کو ہم نے گرفتار کیا جبکہ 369 کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ ان کو گرفتار کرا کے ہم نے کروڑوں ڈالر کی انعامی رقم حاصل کی“۔ یادیں اتنی آسانی سے محو نہیں ہوتیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ فاتحین اس وقت ماضی میں ہونے والے دھوکوں کو زیر بحث نہیں لا رہے۔

دوسری جانب اسلام آباد میں طالبان کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی موجود ہیں۔ چند روز پہلے تھوڑی دیر کے لئے جامعہ حفصہ کی چھت پر طالبان کا پرچم لہرا کر مولانا عبدلعزیز اور ان کے ہمنواؤں نے ا فغان فاتحین کو یہ پیغام بھیجا ہے: جب تم پر تورا بورا میں بمباری ہو رہی تھی تب بھی ہم تمہارے ساتھ تھے۔ اب جب تم فتحیاب ہو چکے ہو، ہم اب بھی تمارے سا تھ ہیں۔

کسی کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے۔ ایفپاک (AfPak) ایک حقیقت بن چکا ہے۔ یہ اصطلاح امریکہ میں متعارف کرائی گئی تھی اور اسے پاکستان میں پسند نہیں کیا جاتا تھا مگر یہ درست معلوم ہوتی ہے۔ دونوں ممالک میں جغرافیائی قربت ہی نہیں، نظریاتی طور پر ان دو ممالک کے حکمران بھی اب قریب ہیں۔ اب طالبانی سوچ پورے پاکستان میں سراعت کرے گی۔

بھارت افغانستان سے نکال دیا گیا ہے اور تذویراتی گہرائی کا پاکستانی خواب پورا ہو چکا ہے۔ کیا ہمیں نروان مل گیا؟ ہا ں مل تو گیا مگر پوری طرح نہیں۔

اس خوف کے پیش نظر کہ نیا طالبان بھی پرانے جیسا ہی ہو گا، لاکھوں افغان ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ ان افغان مہاجرین کی پاکستان میں آمد کی مخالفت وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جن کے ہونٹوں پر اقبال کا یہ شعر سجا رہتا ہے:

بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

برصغیر پاک و ہند کا پان اسلام ازم، جس کے نتیجے میں پاکستان بنا، اکثر پاکستانیوں کے ہاں طورخم کی سرحد پر دم توڑ دیتا ہے۔ لیکن ”نیا طالبان“ ممکن ہے کسی اور سوچ میں ہو۔ افغان قوم پرستی کامیاب رہی ہے۔ ثقافتی و لسانی تسلسل کو سرحد پر دیوار بنا کر نہیں روکا جا سکتا۔ تاریخ کی سب سے طاقتور سلطنت کو شکست دینے کے بعد طالبان سنکھی بوڑھے انگریزوں کی کھینچی ہوئی لکیروں کو کیونکر مقدس سمجھیں گے؟

پاکستان کو اپنی سرحد افغان مہاجرین کے لئے کھولنی چاہئے۔ ایسا نہ کرنا غیر اخلاقی حرکت ہو گی۔ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو چاہئے کہ طالبان کو باور کرائے: دنیا ان کی پہلے جیسی بربریت کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ یہ وہ دور نہیں کہ عورتوں کو گھروں میں قید کر دو اور برقعوں میں چھپا دو یا مذہبی و لسانی اقلیتوں پر ظلم کرو اور انہیں مار ڈالو۔ ویسے یہ بات طالبان کو سمجھانے سے پہلے ہمیں اپنے معاملات بھی درست کرنے ہوں گے۔

Pervez Hoodbhoy
+ posts

پرویز ہودبھائی کا شمار پاکستان کے چند گنے چنے عالمی شہرت یافتہ سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا شعبہ نیوکلیئر فزکس ہے۔ وہ طویل عرصے تک قائد اعظم یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔