عدنان فاروق /فاروق سلہریا
دو دن قبل، پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل آصف غفور باجوہ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اسرائیل سے تعلقات استوار نہیں کرے گا۔
وہ غالباً معروف اسرائیلی اخبار ہارٹز کی خبر کا جواب دے رہے تھے۔ چند دن قبل ہارٹز نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی جس کا عنوان تھا ’کیا پاکستان اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے جا رہا ہے؟‘ہارٹز کی مذکورہ رپورٹ پاکستانی صحافی کنور خلدون شاہد نے تحریر کی ہے۔
ہارٹز کی رپورٹ کا لب لباب تھا: پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے، لگتا ہے سعودی عرب کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک ہو گا جو اسرائیل کو تسلیم کرے گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہوں۔ اورلوگ برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کشمیر پر ہمارے لیے عرب ممالک اور یہاں تک کے فلسطین بھی نہیں بولا اور یہ ہندستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں اضافہ کر رہے ہیں تو ہم اپنا نقصان کیوں کر رہے ہیں؟
ہارٹز کے مطابق جنرل مشرف نے 2002ء میں اس عمل کی بنیاد پیرس میں رکھ دی تھی اور پھر دونوں ملکوں کے وزیرِ خارجہ انقرہ میں 2005ء میں ملے۔ اُس وقت فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی اس بات کی تعریف کی تھی۔
اپنی خبر میں دلیل کے طور پر ہارٹز نے دنیا گروپ کے ایڈیٹر اور اسٹیبلشمنٹ کے قریب جانے والے صحافی کامران خان کا ٹویٹ پیش کیا ہے جس میں کامران خان نے کہا ہے کہ ”ہم اسرائیل کے ساتھ رابطے کے براہِ راست اور واضح راستے کھولنے کے پیشہ ورانہ اصولوں پر کیوں کھل کر بحث نہیں کرسکتے ہیں“۔ اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے بھی اسی طرز پر ایک کالم تحریر کیا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چودھری نے بھی اسی قسم کا ٹویٹ کیا ہے کہ ہمارے لئے ہمارا ملک اہم ہونا چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل شاہ محمود قریشی نے بھی اسرائیلی اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس قسم کی بات کی تھی۔
ہارٹز کے مطابق انقرہ میں پاکستانی اور اسرائیلی وزرا ئے خارجہ کی ملاقات کے بعد گذشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران، اسرائیل اور پاکستان کے درمیان باہمی رابطے بڑی حد تک انٹیلی جنس اور اسلحے کے سودوں تک ہی محدود رہے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں اسلام آباد میں ایک بھرپور بحث ہوئی ہے۔
اخبار کے مطابق یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ عمران خان کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات میں اضافے کے بعد مرکزی دھارے میں شامل پاکستانی میڈیا پر اس طرح کی بحث پھیل گئی ہے۔
یاد رہے 2012ء میں ہارٹز کے ساتھ ایک انٹرویو میں جنرل مشرف نے اپنے نظریے کے پیچھے بنیادی عملیت پسندی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ”ابتداسے ہی ہم فلسطین کے حامی رہے ہیں لیکن میں حقیقت پسندی اور زمینی حقائق کا جائزہ لینے پر یقین رکھتا ہوں… 48 کے بعد سے بہت کچھ ہوا ہے اور کسی کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا… پالیسیاں مستقل نہیں رہنی چاہئیں۔ بہت سارے مسلم ممالک کو یہ بات سمجھ آچکی ہے اور وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں … پاکستان کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے“۔
ہارٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سابق صدر مشرف کے مثبت بیانات سے پاکستان کے اقتدار کی راہداریوں کے خیالات واضح طور پر ملتے ہیں۔ اس بات کا سب سے نمایاں اشارہ یہ ہے کہ اسلام آباد کا حکمران طبقہ اس گفتگو کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
مندرجہ بالا رپورٹ کی صداقت کا فیصلہ تو مستقبل میں ہی ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے بائیکاٹ پر ترقی پسند موقف کیا ہونا چاہئے؟
راقم کے خیال میں پاکستانی ترقی پسندوں کو کھل کر اسرائیل سے تعلقات کی مخالفت کرنی چاہئے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب بی ڈی ایس تحریک (یعنی اسرائیلی بائیکاٹ کی عوامی تحریک) عالمی سطح پر کامیابیاں حاصل کر رہی ہے، اس قسم کی سرکاری کوشش بی ڈی ایس تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہو گی۔ پاکستانی حکمرانوں کے ذہن میں شایدیہ بات ہے کہ اسرائیل ان کو امریکہ کے قریب لا سکتا ہے۔ اس قسم کی احمقانہ پالیسی عوام دشمنی کے سوا کچھ نہ ہو گی۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری کا مطلب ہے‘دنیا کے آخری نو آبادیاتی پراجیکٹ کو جواز فراہم کرنااوراسے طوالت دینا۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کی خطرناک چوکی ہے۔ سامراجی مفاد میں اس خطے کو غیر متزلزل رکھنے میں اسرائیل کا بنیادی کردار ہے۔ اس ملک کے ساتھ تعلقات کا مطلب ہے مشرق وسطیٰ میں جاری بربریت کا حصہ بننا۔ اسرائیل‘خطے میں مذہبی جنونیت کا گڑھ ہے۔ اس کی یہودی بنیاد پرستی خطے میں مسلم بنیاد پرستی کے لئے وہی کردار ادا کرتی ہے جو بی جے پی پاکستان میں بنیاد پرستی کے لئے ادا کرتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک زمانے میں پی ایل او کو کمزور کرنے کے لئے اسرائیل مذہبی جنونی قوتوں کی سر پرستی کرتا رہاہے۔