فاروق سلہریا
میرے ایک دوست نے کابل سے اپنے چھ سالہ بیٹے تنویر کی تصویر بھیجی ہے۔ کابل میں جاتا تھا تو یہ دوست میرا میزبان ہوتاتھا۔ خود بھی خوش لباس اور مغربی لباس شوق سے زیب تن کرتا ہے اور باقی سارا خاندان بھی۔
سچ تو یہ ہے کہ افغانستان کے شہری طبقے میں اسی کی دہائی تک مغربی لباس پہننا گویا ضروری تھا۔ سینما، بہت سے کیفے اور ریستوران یا کافی ہاؤس ایسے تھے جہاں بغیر کوٹ پتلون اندر بھی نہیں جا سکتے تھے۔
تنویر کو بھی میں نے جب دیکھا دیدہ زیب مغربی لباس میں دیکھا۔ کل دوپہر جب وہ گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیلنے نکلا تو اس کے دوستوں نے وارننگ دی: ”ارے شہر میں طالبان آ گئے ہیں۔ تم نے جس طرح کے کپڑے پہن رکھے ہیں، طالبان ایسے لباس والے بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں“۔
تنویر بھاگا بھاگا گھر پہنچا، ماں سے بولا ”مادر میرے کپڑے بدل دو، طالبان آ گئے ہیں“۔
ماں نے شلوار قمیض پہنا دی۔ وہ شلوار قمیض سے بھی مطمئن نہ ہوا۔ سر پر کالے رنگ کی پگڑی بھی باندھ لی۔ فر فر چار زبانیں بولنے والا تنویر بھلے کابل میں رہتا ہے لیکن انٹرنیٹ کی وجہ سے بالکل انٹرنیشنلسٹ ہے۔
اس کے والد نے جو تصویر بھیجی ہے، اس میں وہ مدرسے کا طالب علم لگ رہا ہے۔ معلوم نہیں وہ کب تک اس بھیس میں گھومے گا۔
(نوٹ:بوجہ بچے کا نام بدل دیا گیا ہے)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔