فورتھ انٹرنیشنل
یہ بیان فورتھ انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو بیورو نے 30 اگست 2021 ء کو جاری کیا۔
عراق سے امریکی فوجی انخلا کے دس سال بعد افغانستان میں امریکی مداخلت ایک بار پھر حقیقی شکست سے دوچار ہے۔ ہمیں آنے والے عرصے میں دیکھنا ہو گا کہ اس سے امریکی سامراج کے دنیا کی سر کردہ طاقت کے طور پر عالمی جیو پولیٹکس پر حکمرانی کے دعوے کس حد تک متاثر ہوتے ہیں، جیسا کہ اس نے 20 سال قبل فوج کشی کے ذریعے مذکورہ دونوں ممالک پر قبضہ کیا تھا۔
نئی صدی میں افغانستان اس طرح کے فوجی حملوں کا شکار ہونے والا پہلا ملک تھا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی چین، ایران اور روس کی ایسے ممالک کے طور پر نشاندہی کر چکی ہے جن سے چوکنا رہنا چاہیے۔ اس طرح وہ افغانستان میں موجودگی کا مطلب اچھی طرح جانتے تھے کہ پاکستان کے علاوہ پڑوسی ایران، چین اور روس نواز وسط ایشیائی ریاستیں جو تیل و گیس کے ذخائر سے بھی مالا مال ہیں، پر نظر رکھی جائے۔
15 اگست کو طالبان کی طرف سے خونریزی، اغوا اور نقل مکانی کی صورت میں کابل پر قبضہ ہوا، جس سے تین کروڑ 80 لاکھ افغانوں کی اکثریت پر غیر یقینی مستقبل کے بادل منڈلانے لگے۔ طالبان نے امریکہ کی توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے دوبارہ اقتدار سنبھال لیا، جس سے امریکی سامراج کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔ اس کے تمام افغان کٹھ پتلی دھوکہ دے گئے۔
سامراج کے لیے انتشار
طالبان کی فتح کو امریکی سامراج نے کئی طریقوں سے سہولت فراہم کی۔ طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے نے اس قبضے کی راہ ہموار کی۔ قطر، روس، ایران، چین اور پاکستان کی براہ راست یا بالواسطہ شمولیت سے امریکہ اور طالبان ایک معاہدے پر پہنچ گئے۔ افغانستان میں 20 سال سے جاری امریکی جنگ سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ملکی مستقبل اب مضبوط طالبان کے رحم و کرم پر ہے۔ کسی بھی لمحے افغان عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے عمل میں شامل نہیں تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اب صدر بائیڈن پر الزام تراشی میں مصروف ہیں لیکن حقیقت میں اس صورتحال کے دونوں ذمہ دار ہیں۔ بائیڈن ٹرمپ کی سامراجی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، چاہے ان کا تعلق افغانستان سے ہو یا اسرائیل، کیوبا، وینزویلا اور دیگر ریاستوں سے۔
ٹرمپ نے دوحہ معاہدے کو حتمی شکل دی، بائیڈن نے اسے نافذ کیا۔ امریکی انخلا نے ”ہمیشہ کے لیے جنگ“ کے امریکی بیانئے کو تو زد پہنچائی تاہم عسکری طور پر افغانستان کی دلدل میں پھنسے امریکی سامراج کو وہاں سے نکلنے میں مدد بھی دی تاکہ وہ اپنے وسائل کو کہیں اور استعمال کر سکے۔ امریکہ ہر حال میں افغانستان سے نکلنا چاہتا تھا۔ پہلے شہریوں کے انخلا کا اہتمام کیا گیا مگر انہیں بدترین طریقے سے نکالا گیا۔
غیر سنجیدہ امریکی انخلا اس کے اتحادیوں کی بھی ناراضی کا باعث بنا۔ یورپی سیاست دان ناراض تھے کہ انہیں امریکی انخلا کے منصوبے میں شامل نہیں کیا گیا، اب ایک ایسی مسلح فورس بنانے کی بھی بات ہو رہی ہے جسے امریکہ اور نیٹو خود مختاری کے ساتھ استعمال کر سکیں، 20 سال قبل سامراجی قوتوں نے کابل پر قبضے کی خوشی منائی تھی لیکن موجودہ شکست اور خاص طور پر ان کی کٹھ پتلی حکومت کے تیزی سے خاتمے نے امریکی اتحادیوں کے درمیان شدید اختلافات کو عیاں کر دیا۔ 2001ء میں بش جونیئر کے قریبی رفقا میں سے ایک ٹونی بلیئر نے افغان انخلا کو ’خطرناک‘ اور ’غیر ضروری‘ قرار دیا ہے۔
چین، روس طالبان حکومت کے ضامن
طالبان کی کابل واپسی سے خطے میں روس اور چین جیسے امریکی حریفوں کا اثر و رسوخ مزید بڑھنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ 2001ء میں کابل پر امریکی قبضے کے برعکس، چین اور روس اب امریکی سامراج کا ساتھ نہیں دے رہے۔ دونوں ممالک طالبان کے ساتھ ’افغانستان کی ترقی‘ اور امریکی سامراج کے چھوڑے ہوئے منصوبوں کو مکمل کرنے کے بارے میں سنجیدہ بات چیت کر رہے ہیں۔ روس اور چین طالبان کی آمریت کو تسلیم کرنے کے لیے بے شرمی سے تیار ہیں۔ دونوں نے اپنے عوام کو یہ جواب جو نہیں دینا کہ افغان عوام کا کیا ہو گا۔ آمریت کے اپنے ’فوائد‘ ہوتے ہیں۔
امریکی اتحادیوں میں تقسیم اور اس کے حریفوں کے مضبوط اثر و رسوخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوحہ معاہدہ امریکی سامراجیت کے لیے سمجھوتہ تھا۔ اس کے آہستہ روی اور اذیت ناک شکست سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ دو دہائیاں قبل شروع کی گئی اپنی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ناکام رہا۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ایک بڑا اور افراتفری پر مبنی ہوائی آپریشن کیا گیا۔ نیٹو افواج نے ہزاروں افراد کو کابل ہوائی اڈے سے نکالا۔ بد امنی اور حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد کی ہلاکتیں ہوئیں، ہزاروں افراد اب بھی ملک سے کسی معجزانہ فرار کے منتظر ہیں تاکہ طالبان ڈیتھ اسکواڈ سے بچ سکیں۔ ہوائی اڈے پر امریکی اور نیٹو کی مدد کے منتظر ہزاروں افراد کی موجودگی کے باوجود صدر جو بائیڈن 31 اگست تک ڈرامائی انخلا ختم کرنے کے لیے پرعزم رہے۔ یہ افغانوں کے ساتھ امریکی بے حسی تھی۔
امریکہ نے اب ان کے اپنے مرکزی بینک میں موجود 9.5 بلین ڈالر کے ذخائر بھی منجمد کر دیئے ہیں جبکہ آئی ایم ایف نے کورونا امدادی پروگرام کے تحت افغانستان کے لیے 450 ملین ڈالر کا فنڈ معطل کر دیا ہے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دنیا کا ساتواں غریب ترین ملک افغانستان، جو اس وقت طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، میں مزید غربت ڈیرے ڈالے گی۔
گزشتہ 20 سال سے ترقی، جمہوریت اور مسلح افواج کی تربیت کے نام پر جو کچھ افغانستان میں خرچ کیا گیا وہ سرمایہ کاری کے لحاظ سے بے مثال تھا۔ کوسٹ آف وار پراجیکٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں 2226 بلین ڈالر خرچ کئے۔ اس رقم سے پوری دنیا میں بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولت فراہم کی جا سکتی تھی۔ امریکی محکمہ دفاع کی 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے جنگی اخراجات پر 815.7 بلین ڈالر خرچ کیے۔
اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپریل 2021ء تک 47235 شہری، 72 صحافی اور 444 امدادی کارکن ہلاک ہوئے۔ 66 ہزار افغان فوجی بھی اس جنگ کا شکار ہوئے۔
امریکہ نے اپنے 2442 فوجی کھوئے اور 20 ہزار 666 زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 3800 پرائیویٹ سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ نیٹو کی افغان افواج میں 40 ممالک کے فوجیوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے 1144 فوجی ہلاک ہوئے۔ ملک سے باہر پناہ لینے والے لوگوں کی تعداد 27 لاکھ ہے، جبکہ 40 لاکھ اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ امریکی سامراج نے افغان جنگ کے لیے بڑے پیمانے پر قرض لیا۔ اس نے صرف 536 بلین ڈالر سود میں ادا کیے۔ اس کے علاوہ اس نے جنگی فوجیوں کی واپسی کے لیے طبی اور دیگر اخراجات پر 296 بلین ڈالر خرچ کیے۔ وہاں تین لاکھ افغان فوجیوں کی تربیت پر 88 بلین ڈالر خرچ ہوئے جو بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال رہے تھے اور 36 بلین ڈالر تعمیر نو کے منصوبوں جیسے ڈیموں، شاہراہوں وغیرہ پر خرچ ہوئے، 9 ارب ڈالر نقد ادا کئے گئے تاکہ افغان پوست کی کاشت نہ کریں اور ہیروئن فروخت نہ کریں۔
امریکی سامراج نے طالبان اور القاعدہ کے خطرے کو انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے لیے، خفیہ کیمپ اور جیلیں بنا کر لوگوں پر تشدد کیلئے اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے لوگوں کو گوانتانامو میں ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ پیٹریاٹ ایکٹ پر عمل کرتے ہوئے سی آئی اے اور این ایس اے کو مضبوط کیا گیا۔
پرتشدد، نااہل اور کرپٹ حکومت کا خاتمہ
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ کیا کہ ان کا قبضہ افغانستان میں ترقی لائے گا اور خواتین کو طالبان کی جابرانہ حکمرانی سے آزاد کرائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس قبضے کے بعد حقیقی مقامی حمایت حاصل کرنے کے بجائے بدعنوان، پرتشدد اور سابقہ جنگجوؤں پر انحصار کیا گیا۔ جیسا کہ اس صورتحال پر افغان خواتین کی انقلابی تنظیم نے تبصرہ کیا: ”قبضے کے نتیجے میں صرف خونریزی، تباہی اور انتشار پیدا ہوا۔ انہوں نے ہمارے ملک کو انتہائی کرپٹ، غیر محفوظ، ڈرگ مافیا کا گڑھ اور خاص طور پر خواتین کے لیے خطرناک جگہ بنا دیا“۔
یہ قبضہ غربت کے خاتمے کے اپنے دعوے میں بری طرح ناکام ہو گیا۔ اس وقت افغانستان میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد ہے اور غربت کا تناسب عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق 47 فیصد ہے۔ اشرف غنی اینڈ کمپنی میگا کرپشن میں ملوث تھے۔ طبقاتی تقسیم شدید تھی۔
افغانوں نے امریکیوں کے لیے جنگ نہیں کی تو وہ امریکہ کے مقامی ایجنٹوں کے لیے کیوں لڑیں گے؟ افغان عوام اور فوجیوں کے پاس طالبان کے خلاف لڑنے کی کوئی نظریاتی بنیاد نہیں تھی۔ غنی حکومت کا خاتمہ اس لیے نہیں ہوا کہ طالبان کی حمایت بہت زیادہ تھی، یہ خاتمہ اس لیے ہوا کہ تشدد، نااہلی اور بدعنوانی کیلئے لڑنے والے بہت کم تھے۔ افغانستان کا تاریخی سبق یہ ہے کہ غیر ملکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قوتیں ملک کا دفاع نہیں کر سکتیں یا اکثریتی عوام کے لیے حالات کو نمایاں طور پر بہتر نہیں کر سکتیں۔ 20 سال تک امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں تعینات رہیں، لیکن ان کی تربیت یافتہ افغان فوج بغیر کسی لڑائی کے منتشر ہو گئی۔ سابقہ سوویت قبضے کی طرح، جس کی ہم نے اسی طرح مذمت کی، امریکہ طویل مدتی حکومت قائم کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوا۔
اشرف غنی اینڈ کمپنی سرمایہ داری کی بدترین شکل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دوسری طرف طالبان مذہب کا چالاکی سے استحصال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ مذہبی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ اشرف غنی نے کبھی واضح نہیں کیا کہ وہ کیسی ریاست چاہتے ہیں۔ بہت کم امید ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں طالبان کے خلاف کوئی سنجیدہ مخالفت ابھرے گی۔ بیشتر جنگی سردار (اکثر سابق مجاہدین) جو پچھلے 20 سال سے واشنگٹن کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور افغانستان میں مقیم رہے وہ طالبان کے ساتھ نام نہاد ’شراکت اقتدار‘ مذاکرات میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی شکست قبول کر لی ہے اور اس کے عوض اب وہ کسی بھی علاقے کو قبول کرنے کے لیے بے تاب ہیں جو طالبان انہیں دے سکتے ہیں۔ اس طرح کے جنگجوؤں کو طالبان استعمال کریں گے، ان پر بعد میں مقدمہ چلایا جائے گا تاکہ عوام کو ریلیف دینے میں ناکامی پر پردہ ڈالا جا سکے۔ نام نہاد ’طالبان مخالف مزاحمت‘ جس کا بعض مغربی میڈیا میں چرچا رہتا ہے اسی طرح کے بدنام زمانہ جنگجوؤں پر مشتمل ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
طالبان تشدد کے ذریعے اپنی طاقت بڑھا رہے ہیں
طالبان حکمت عملی کے ساتھ اپنی طاقت کو بڑھا رہے ہیں۔ ایک طرف وہ تیاری کر رہے ہیں اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں، دوسری طرف، وہ قبائلی رہنماؤں اور سابق حکومتی عہدیداروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سب کی شمولیت پر مبنی حکومت کا تاثر دینا چاہتے ہیں۔ شمولیت کے یہ اشارے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ کابل زیر کنٹرول ہونے کی وجہ سے طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرنے کے عوض علامتی شراکت اقتدار کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں۔
فی الوقت طالبان کابل میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں مگر گزشتہ چند مہینوں میں جہاں ان کا قبضہ ہوا انہوں نے اپنے روایتی تشدد کا مظاہرہ کیا۔ اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ ہفتوں کے دوران طالبان کے جنگی جرائم کی نشاندہی کی تھی۔
طالبان کا مطلب ’بربریت ہماری سیاست ہے۔‘ ان کی اصل حکمت عملی یہ ہے کہ لوگوں کو خوف میں رکھیں اور انہیں دہشت کے ذریعے نظم و ضبط کا پابند بنائیں۔ لہٰذا وحشیانہ سزائیں (ناک اور ہاتھ کاٹنا، سنگسار کرنا، سرعام پھانسی دینا، ہیلی کاپٹر سے گرانا) خوف پھیلانے کے لیے دی جاتی ہیں۔ دہشت اور توہین کے ذریعے وہ مزاحمت کو ختم کر دیتے ہیں۔
پچھلی بار صرف متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا۔ لیکن اب ترکی، روس، چین، پاکستان اور دیگر ممالک طالبان کے ساتھ تعاون پر آمادگی ظاہر کر رہے ہیں۔ مغربی سامراجی ممالک کے سیاستدان طالبان کے تشدد کی منافقت کے ساتھ مذمت کرتے ہیں، وہ بھی مستقبل میں اس کے ساتھ ’مشغولیت‘ کے امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ افغانستان کے اندر اور خطے میں رجعتی تحریکوں کے لیے امریکی حمایت کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ امریکہ نے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی دائیں بازو کی آمریت اور سوویت حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف جہادیوں کے عالمی نیٹ ورک کی حمایت کے لیے سعودی حکومت کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔ نجیب اللہ کی حکومت کو گرانے کے بعد طالبان ایک خونی اور طویل خانہ جنگی کے نتیجے میں افغانستان میں برسر اقتدار آئے۔ سامراجی سیاست تمام بدصورت خصوصیات کے ساتھ اپنے عروج پر ہے۔ اس کی قیمت افغان اور دنیا کے دیگر لوگ ادا کریں گے۔
خانہ جنگی کا ایک نیا مرحلہ
افغانستان میں امریکی سامراج کے دھچکے کا مطلب سامراج مخالف قوتوں کی فتح نہیں ہے۔ امریکی سامراج کو ایک رجعتی قوت نے دھچکا لگایا ہے جس کا جمہوریت، انسانی اور خواتین کے حقوق، ماحولیات یا لوگوں کی سماجی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 1996ء تا 2001ء طالبان حکومت کا پہلا دور افغانستان میں اقلیتوں، خواتین اور عام لوگوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ طالبان تبدیل نہیں ہوئے۔ وہ صرف زیادہ وسائل والے ہو گئے ہیں اور ماضی کی نسبت زیادہ نفیس انداز میں کام کرنے لگے ہیں۔ طالبان کے پاس ’اسلامی فتوحات‘ کا عالمی ایجنڈا ہے۔ جو انہوں نے افغانستان میں اپنے سابقہ برسوں کے دوران کیا اسے وہ مختلف شکلوں میں دہرائیں گے۔ طالبان سابق دور کے برعکس اس بار طویل عرصے تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔
پھر طالبان کی فتح امن کی علامت نہیں بلکہ خانہ جنگی کا ایک نیا مرحلہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایک اور جنونی مذہبی ریاست کے قیام کا مطلب اس کی سرحدوں کے اندر جبر اور پورے خطے میں مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دینا ہو گا۔ امن نامکمل رہے گا۔ طالبان کی فتح دنیا بھر کے ترقی پسندوں کے لیے بری خبر ہے۔ امریکی ایجنٹوں پر ہماری تنقید کا مطلب طالبان کی حمایت نہیں ہے۔
کوئی بھی عوامی مزاحمت وحشیانہ دباؤ اور سخت رکاوٹوں کا سامنا کرے گی۔ اس کے باوجود ہم مزاحمت کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ بندوق کی نوک پر افغان عوام کو ڈکٹیٹ کرنا ممکن نہیں ہے۔
سامراج اور طالبان کی رجعتی حکومت دونوں کی مخالفت جاری رہنی چاہیے۔ حقیقی جمہوری اور سوشلسٹ قوتوں کی فتح ہی افغانستان میں مستقبل میں ہونے والی خونریزی کو روک سکتی ہے۔
بین الاقوامی ترقی پسند قوتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شکست و ریخت کو کم کرنے کیلئے مستقبل میں متبادل راستہ اپنائیں۔ سامراج اور طالبان دونوں کے متبادل کے قیام کے لیے افغانستان کے اندر سماجی تنظیموں اور افغان تارکین وطن کے سماجی اور سیاسی حقوق کی حمایت ضروری ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ کوئی بھی ملک طالبان کی حکومت کو افغانستان کی نمائندہ حکومت تسلیم نہ کرے۔
٭ پناہ کے متلاشی افراد کے لیے کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے اور ان کے لیے مناسب انتظام کیا جانا چاہیے جہاں وہ رہ سکتے ہیں یا جہاں منتقل ہو سکتے ہیں۔
٭ انسانی امداد کو روکنے یا اسے طالبان کے ساتھ سودے بازی کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے مقامی تنظیموں کے ذریعے امداد دی جانی چاہیے۔
٭ بین الاقوامی ترقی پسند قوتوں کو افغانوں کی ترقی پسند تنظیموں کے ساتھ روابط استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، خاص طور پر افغان خواتین کی تنظیموں کو مدد کی پیشکش کرنی چاہیے۔
ترقی پسند قوتوں کو نئی سامراجی مداخلت کو منظم کرنے کی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کرنی چاہیے۔ انہیں ان نسل پرستانہ پروپیگنڈے کی مخالفت کرنی چاہیے جو طالبان کو سامراجی مداخلت کے بجائے ’اسلامی پسماندگی‘کی پیداوار سمجھتے ہیں۔
سامراج نامنظور…طالبان نامنظور