کراچی (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے سینئر صحافی وارث رضا کو کراچی میں ان کے گھر سے سکیورٹی اداروں نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
وارث رضا کی بیٹی لیلیٰ وارث رضا نے ’جدوجہد‘کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ منگل کی صبح 3 بجے اس وقت پیش آیا جب وہ اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے، رینجرز کی دو گاڑیاں اور ایک سفید کار پر سوار رینجرز اور سول وردیوں میں ملبوس اہلکاروں نے انہیں حراست میں لیا اور گھر سے انکا کچھ سامان، بٹوا اور موبائل بھی اٹھا کر لے گئے۔
لیلیٰ وارث رضا کا کہنا تھا کہ رینجرز اہلکاروں نے ہمیں بتایا کہ صرف 5 منٹ کیلئے انہیں لے کر جا رہے ہیں، جس کے بعد انہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔ تاہم کچھ دیر کے بعد والد نے اپنے نمبر سے مجھے کال کی اور کچھ ضروری پیغامات بھیجنے کی ہدایت کی اس کے علاوہ جونہی انہوں نے کہا کہ ’میرے دوستوں کو خبر کر دو‘ تو فون اچانک بند ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے ہاتھ سے فون چھین لیا گیا۔
انکا کہنا تھا کہ 2 گھنٹے بعد پھر میری بہن کو فون آیا اور فون کرنے والے نے کہا کہ آپ کے والدکو ایک گھنٹے تک چھوڑ رہے ہیں۔ تاہم ایک گھنٹے کی بجائے کئی گھنٹے گزر چکے ہیں انہیں رہا نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہے۔
لیلیٰ وارث کا کہنا تھا کہ ہم نے وکیل سے بھی رابطہ کیا ہے اور انکے اغوا کی ایف آئی آر درج کروانے کیلئے درخواست بھی دے رہے ہیں۔
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے والد کی تحریروں سے ’ہائبرڈ رجیم‘ کو خصوصی خطرہ محسوس ہو رہا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ یہ انکے خیالات اورتحریروں کا ہی رد عمل ہے۔
واضح رہے کہ وارث رضا کا شمار کراچی کے سینئر ترین صحافیوں میں ہوتا ہے۔ بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے وارث رضا کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے ممبر ہیں، ماضی میں نجی ٹی وی ’اے آر وائے‘ کے علاوہ دیگرمتعدد اخبارات اور میڈیا ہاؤسز کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ان دنوں وہ ’ایکسپریس‘ میں مستقل کالم لکھتے تھے۔
گزشتہ اتوار کو ہی ایکسپریس میں انکا مضمون ’جمہوریت دشمن اقدامات‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ لیلیٰ وارث کے مطابق وہ اپنے کالموں اور تحریر و تقریر میں پاکستان کے اقتدار میں موجود ’ہائبرڈ رجیم‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
وارث رضا کو اس طرح حراست میں لئے جانے کے اقدام کی سنٹرل یونین آف جرنلسٹس نے شدید مذمت کی ہے اور انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے بھی اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے انکی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ آر ایس ایف اور جے کے این ایس ایف کے رہنماؤں نے سینئر صحافی کو اس طرح حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔