نقطہ نظر

اے اہل قلم تم کس کے ساتھ ہو؟

فیض احمد فیض

”چند برس ہوئے جب میں کراچی میں تھا۔ میں نے چند لکھنے والوں کو آمادہ کیا کہ وہ دوسرے لکھنے والوں کو ایک پیغام دیں (یہ پیغام میں نے تیار کیا تھا) اس وقت اس پیغام کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اب میں وہی پیغام اس امید کے ساتھ دوبارہ شائع کر رہا ہوں کہ شاید چند لکھنے والوں کو اس سے تحریک ہو اور وہ مل کر کام کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔“

وہ اس عہد میں دنیا بھر کے عوام کا وفادار ہے، اس کا کام ہے کہ وہ عوام کے دشمنوں اور دوستوں میں امتیاز کرے اور عوام کو ان کی پہچان کرائے اور انہیں بتائے کہ کون انہیں آزادی دلانے ان کی زندگی میں حسن اور پاکیزگی لانے، ہرقسم کے استحصال کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور کون انہیں غلام بنانے انہیں لوٹنے، انہیں کرپٹ کرنے اور ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں اور مکروفریب اور ظلم و جبر سے اپنے اقتدار کی عمر بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے سنجیدہ لکھنے والوں کو بلاخوف و خطر اور برملا سچی باتیں کہنا چاہئیں اور اظہار ِ رائے کی آزادی پر عمل کرناچاہئے۔ انہیں جبر اور ظلم کو بے نقاب کرنا چاہئے اور جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں، انہیں ننگا کرنا چاہئے اور سماجی معاشی اور ثقافتی منافقت کو بے نقاب کرنا چاہیے۔

آج لکھنے والوں کا کام یہ ہے کہ وہ سامراج نسل پرستی، نوآبادیاتی نظام اور جدید نوآبادیاتی نظام کی مخالفت کریں اور مشرق و مغرب کے عوام سے محبت کریں اور آزادی،جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کی پُرزور حمایت کریں۔

انہیں سامراج کی مداخلت، سازش اورغارت گری اور جنگی تیاریوں کی مخالفت کرنی چاہئے اور آزادی اور امن کی حمایت کرنی چاہئے۔

ہمارے نزدیک لکھنے والوں کو آزادی ملنی چاہئے کہ وہ اپنی نجات کا راستہ خود تلاش کریں اور ان پر کسی خاص سیاسی پروگرام کو ماننے کی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔

لیکن ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ اوپر لکھی ہوئی باتیں وہ کم از کم باتیں ہیں جنہیں سب لکھنے والوں کو قبول کرنا ہوگا۔

ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام لکھنے والے جو اوپر لکھی ہوئی باتوں کو زیربحث لانے کے لیے تیار ہیں، مل بیٹھیں اور اپنے تخلیقی کاموں کے لیے ایک نیا عہد نامہ تیار کریں جو آج کے لکھنے والوں کی راہ نمائی کرے اور نئی نسل کے فکری دھاروں اور تخلیقی کاموں میں مشعل راہ کا کام دے اور عوام شعور کی روشنی سے منور ہو کر اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کر سکیں۔

ہم عصر لکھنے والو! ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ کیا آپ پاکستان میں ہونے والے تخلیقی کام سے مطمئن ہیں۔ کیا آج کے لکھنے والوں کے ہاں وہی سرخوشی اور وہی کرب موجود ہے جو آزادی سے پہلے کے اس برصغیر کے لکھنے والوں کے ہاں تھا۔ (جن میں شایدآپ بھی شامل ہوں)۔

کیا ان کے الفاظ میں وہی حسنِ ترتیب اور تخیل میں وہی بلندی اور صفائی موجود ہے۔ کیا ان کے ہاں تجربے اور شخصیت میں وہی ہم آہنگی، وہی جرأت وہی صداقت وہی محبت وہی ترحم اور خوش آئند مستقبل میں وہی پُرامید اعتماد موجود ہے۔

کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ آج لکھا جا رہا ہے، اس کا بڑا حصہ بے مقصد اور سطحی ہے اور نظریاتی الجھنوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں جن جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ اخلاص سے عاری ہیں۔ اس میں لالچ اور ہوس جھلکتی ہے۔ اس ہمارے میں خوف پایا جاتا ہے۔ ہمارے ادب میں یقین اور اعتماد کی کمی ہے اور یہ کمی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے ادب میں منافقت اور زندگی سے بیزاری کی بھرمار ہے۔

اگر پہلے سوال کا جواب نفی میں ہے اور دوسرے سوال کا جواب ہاں میں ہے تو کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ ہم سب سرجوڑ کر بیٹھیں اور اس کے بارے میں کچھ کریں۔ غور کا مقام یہ ہے کہ کیا کیا جائے۔ ہمارے خیال میں ہم لکھنے والوں کے لیے بنیادی اصول وضع کریں تاکہ وہ اپنی ذات کو دریافت کر سکیں اور اپنی اجتماع ذمہ داریوں کو نبھا سکیں۔

ایک طرح کی سوچ رکھنے والوں کے درمیان پھر سے تعلق جوڑا جائے اور ان میں رفاقت قائم کی جائے تاکہ لکھنے والے تنہائی اور بے گانگی کے خول سے باہر نکلیں۔

ہمارا یقین ہے کہ ہر سنجیدہ لکھنے والا کمنٹمنٹ رکھتا ہے۔ اس کی اپنی ذات سے وابستگی ہوتی ہے اور اپنے فن سے ہوتی ہے۔ اسے اس کی وفاداری کو جو اسے اپنی ذات اور فن سے ہے نبھانا چاہئے اور کسی قسم کے خوف سے اپنی وفاداری اور اپنی رائے ترک نہیں کرنی چاہئے۔ موقع پرستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اسے چند ٹکوں کے عوض اپنا فن اور اپنا نظریہ نہیں بیچنا چاہئے۔

اسے اپنے تجربات اور مشاہدات سے بیوفائی نہیں کرنی اچاہئے اور نہ اسے مصلحت آمیز رویہ اختیار کرنا چاہیے اور نہ کوئی بیرونی دباؤ قبول کرنا چاہئے۔

لکھنے والا اپنے ملک اور اپنے عوام کا وفادار ہوتا ہے اور وہ عوام کا دوست اور ان کا دانشور اور ان کا راہنما ہوتا ہے۔ اس کا کام ہے۔ عوام کو جہالت، توہمات، روایات اور تعصبات کے اندھیرے سے نکالنا اور علم و دانش کی روشنی کی طرف لے جانا اور اس کا کام ہے۔ عوام کو جبر سے آزادی کی طرف اور مایوسی سے امید کی طرف لے جانا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts