فاروق سلہریا
کیپٹن ظفراللہ پوشنی دو دن قبل کراچی میں وفات پا گئے۔ گو فوج میں تو فیض احمد فیض صاحب بھی رہے لیکن جن دو مشہور فوجی افسران کو پاکستان کے بائیں بازو میں ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا گیا ان میں ایک تو تھے میجر اسحق اور دوسرے تھے کیپٹن ظفراللہ پوشنی۔
میجر صاحب تو عمر بھر بائیں بازو کی سیاست میں متحرک بھی رہے۔ وہ مزدور کسان پارٹی کے بانی تھے۔ ملک بھر میں آج بھی ان کے نظریاتی شاگرد اور ساتھی مل جائیں گے۔ کیپٹن ظفر اللہ پوشنی البتہ عملی سیاست سے دور ہی رہے۔ ہاں مگر ان کی کتاب ’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘ بائیں بازو کے کارکنوں کے لئے ٹیکسٹ بک کا درجہ رکھتی ہے۔ کتاب پر معروف کالم نگار حسن مجتبیٰ کا تبصرہ اس لنک پر دستیاب ہے۔
اس کتاب میں نام نہاد راولپنڈی سازش کیس کو بے نقاب کیا گیا ہے جس کی آڑ میں پاکستانی ریاست نے نہ صرف کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی بلکہ اس کے ٹریڈ یونین فرنٹ اور طلبہ ونگ پر بھی پابندی لگا دی۔ ساتھ ہی ساتھ پارٹی قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا۔
اس کیس کی تفصیل بی بی سی اردو پر گذشتہ روز، کیپٹن ظفراللہ پوشنی کی وفات کے موقع پر، ایک مرتبہ پھر پوسٹ کی گئی ہے۔ ثقلین امام کی لکھی اس رپورٹ کو اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔
گو کیپٹن ظفراللہ پوشنی نہ تو کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے نہ ہی کوئی سازش رچی گئی تھی مگر کچھ دیگر بے ضمیر لوگوں کی طرح انہوں نے نہ تو وعدہ معاف گواہ بننا قبول کیا نہ ہی اپنے انقلابی دوستوں سے دھوکا کیا۔ مقدمے کا سامنا کرنے والوں میں فیض احمد فیض اور سجاد ظہر بھی شامل تھے۔
اس مقدمے کی وجہ سے فوجی افسروں کا کورٹ مارشل تو ہوناہی ہونا تھا، پھانسی بھی ہو سکتی تھی۔ کیپٹن ظفراللہ پوشنی مگر کسی بھی خطرے سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ گو یہ جھوٹا مقدمہ اور سازش ناکام ہوئے۔ لمبی قید کے بعدسب لوگوں کو بری کر دیا گیا مگر فوجی ہونے کی وجہ سے کیپٹن ظفراللہ پوشنی کو سزا بہر حال کاٹنا پڑی۔
انہوں نے یہ سزا بھی کاٹی اور عمر بھر اپنے نظریات پر بھی قائم رہے۔
کیپٹن ظفراللہ پوشنی امرتسر میں پیدا ہوئے۔ برطانوی فوج میں کمیشن کے بعد ان کا تعلق ترقی پسند فوجیوں سے ہوا تو مارکسی خیالات سے متاثر ہوئے۔ نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں ان کا فوجی کیرئیر ختم ہو گیا تو جیل کاٹنے کے بعد کراچی میں بس گئے۔ یہاں وہ ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ رہے۔
ان کی وفات پر تبصرہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی خیبر پختونخواہ کے رہنما انور زیب نے اپنے فیس بک پر لکھا:
”مشہور زمانہ پنڈی سازش کیس کے آخری بچ جانے والے ملزم کیپٹن ظفراللہ پوشنی کل پچانوے سال کی عمر میں چل بسے۔ ان سے پہلی ملاقات ”فیض صد سالہ تقریبات“ کے سلسلے میں انڈیا جانے والے ایک وفد کے ساتھ دورے کے دوران ہوئی۔ لاہور سے دہلی تک اور پھر وہاں ایک ہی گیسٹ ہاؤس میں رہائش پذیر ہونے کے دوران ان کے ساتھ گزرے لمحات میری زندگی کے یادگار لمحات ہیں۔ ان کی اینگلو انڈین طرز زندگی، ادب و شاعری سے شناسائی، شفقت و خلوص اور پنڈی سازش کیس کے حوالے سے گفتگو، جس کے وہ خود سب سے کم عمر کردار تھے، علم و معلومات میں اضافہ ہوا۔
پنڈی سازش کیس میٹنگ کے بارے میں فرمایا”کہ جو گفتگو ہوئی اس کی تفصیلات تو ابھی مجھے یاد نہیں رہی لیکن یہ حقیقت ہے کہ سات آٹھ گھنٹے کی بحث اور مغز ماری کے بعد اور معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد اسکیم کو اتفاق رائے سے رد کر دیا گیا تھا اور یہ فیصلہ کر دیا گیا تھا کہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا لیکن استغاثہ نے وعدہ معاف گواہوں سے اتنا جھوٹ بلوایا کہ اس میٹنگ میں حکومت کا تختہ الٹنے پر اتفاق ہو گیا تھا۔ ان بد بخت وعدہ معافوں سے جھوٹ کہلوائے گئے کہ تمام حاضرین میٹنگ میں میجر جنرل اکبر خان کی تجویز سے اتفاق کیا گیا تھا۔ ساری بات کو فیض کا ایک شعر واضح کرتا ہے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے“
اپنے بارے میں بتایا ”میں بذات خود کبھی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر نہیں رہا اور پارٹی پالیسیوں کے بہت سے پہلو سے اتفاق نہیں کرتا تھا لیکن مجھے اس پارٹی کے مسلک سے ہمدردی ضرور تھی۔ ہماری دنیا کی بیشتر آبادی اس قدر افلاس، ناداری، بھوک اور پریشانی کا شکار ہے کہ کوئی بھی حساس انسان ایسی صورت حال سے مطمئن نہیں ہو سکتا اور اس کی خواہش ہوگی کہ اس بے مروت استحصالی نظام کو کسی طرح سے بدلا جائے۔ خاص طور پر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے غریب ممالک کے رہنے والے لوگ جس کسمپرسی کی حالت میں زندہ ہیں وہ کوئی زندگی تو نہیں“۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔