لاہور (جدوجہد رپورٹ) اطلاعات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک درجن سے زائد مسلح افراد نے 5 اکتوبر کو ضلع کارت پروان میں ایک گوردوارے پر حملہ کیا اور کچھ وقت کیلئے اس گوردوارے پر قبضہ کئے رکھا، حملہ آوروں نے سکیورٹی کیمرے بھی تباہ کر دیئے۔
’ریڈیو فری یورپ‘ کے مطابق گوردوارے کے رہنما گورنام نے بتایا کہ حملے میں کوئی زیادہ زخمی نہیں ہوا۔ انہو ں نے بتایا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ حملہ آور کون تھے، تاہم اس واقعے نے اقلیتی سکھ برادری کے تحفظ بارے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
گورنام کاکہنا تھا کہ ”5 اکتوبرکو سہ پہر ساڑھے 3 بجے 15 سے 20 مسلح عسکریت پسند گوردوارے میں داخل ہوئے اور محافظوں کو باندھ دیا۔ انہوں نے سکیورٹی کیمرے بھی توڑ دیئے، وہ تقریباً آدھا گھنٹہ گوردوارہ میں رہے۔ سکیورٹی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ وہ چور تھے یا طالبان۔“
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلح افراد گوردوارے کے اندر ہیں، کچھ تبصرہ نگاروں نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے گوردوارے پر حملہ کیا اور پجاریوں کو مارا پیٹا۔ تاہم اس الزام کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
طالبان کی میڈیا ٹیم کے رکن بلال کریمی کے مطابق حملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
واضح رہے کہ طالبان کے ہاتھوں مذہبی و لسانی اقلیتوں کو امتیازی سلوک اور جبر و تشدد کا سامنا رہا ہے۔ بالخصوص 1996ء سے 2001ء کے دوران طالبان کے دور اقتدار میں کئی مذہبی و لسانی اقلیتوں کو طالبان عسکریت پسندوں کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور اقتدار تک افغان ہندوؤں اور سکھوں کی کمیونٹی کا تخمینہ 80 ہزار سے زیادہ تھا لیکن 1992ء میں نجیب اللہ حکومت کے خاتمے کے بعد اکثریت نے افغانستان کو چھوڑ دیا تھا۔
مارچ 2020ء میں کابل میں سکھوں کے گوردوارے پر مسلح افراد کے مہلک حملے کے بعد مزید افغان ہندو اور سکھ بھارت روانہ ہو گئے تھے۔