الیاہ بدراتسکیس
ترجمہ: سلیم شیخ
پچھلے ماہ ستمبر کی 17 سے 19 تاریخ کے دوران روس میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں جہاں ایک بار پھر صدر ولادیمیر پوٹن کی یونائیٹڈ رشین پارٹی نے معمولی اکثریت سے کامیابی حاصل کی، وہیں کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن (کے پی آر ایف) کی مقبولیت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا جو 19 فیصد ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہی۔
گو کہ حسب روایت اس دفعہ بھی پوٹن کے اتحادیوں کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کا بازار گرم رہا مگر اس کے باوجود نئے ووٹروں بالخصوس بڑے شہروں میں نوجوان کی جانب سے ”کے پی آر ایف“ کے لئے حمایت میں اضافہ دیکھنے میں آیا جن کے خیال میں کمیونسٹ پارٹی کو ووٹ دینے کا مطلب روس کے موجودہ نظام کو رد کرنے کا واحد موقع تھا۔
عمومی طور پر ”کے پی آر ایف“ کا پارٹی پروگرام، 1990ء کی دہائی سے، اسٹالنزم، قوم پرستی، اور سوشل ڈیموکریٹک پیٹرنلزم (Paternalism) کا ملغوبہ رہا ہے، تاہم، پچھلے کچھ عرصہ میں، پارٹی کے اندر ہی سے علاقائی رہنماؤں کی ایک ایسی نوجوان نسل ابھری ہے جس نے پارٹی پروگرام کو وسعت دیتے ہوئے اس میں جمہوری حقوق کے دفاع، سماجی مساوات اور ماحولیات کے بارے میں نعروں کا اضافہ کیا ہے۔
حالیہ انتخابات میں سب سے دلچسپ، ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں ریاضی کے معلم، سینتیس سالہ میخائل لوبانوف کی مہم تھی۔ اگر چہ لوبانوف ”کے پی آر ایف“ کے نامزد کردہ امیدوار تھے مگر انھوں نے ووٹروں کے سامنے خود کو بحیثیت ایک آزاد ڈیموکریٹک سوشلسٹ امیدوار کے طور پر پیش کیا اور ابتدائی نتائج کے مطابق وہ پوٹن کی یونائیٹڈ رشین پارٹی کے امیدوار کو دس ہزار سے زائد ووٹوں (بارہ فیصد کے فرق) سے ہرانے میں کامیاب بھی رہے مگر بعد ازاں انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کے باعث پارلیمنٹ کی نشست حاصل نہ کر سکے۔
میخائل لوبانوف جیسے امیدوار کے لیے عوامی سطح پر ووٹ حاصل کرنا بائیں بازو (کی جماعتوں) کے لیے بہت امید افزا پیش رفت ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روس کے موجودہ کٹھن سیاسی ماحول میں بھی عوامی اضطراب کو سامنے لانا ممکن ہے۔ مثلاً روائتی طور پر ”کے پی آر ایف“ کے نکتہ چیں، رشین سوشلسٹ موومنٹ اور بائیں بازو کے دیگر گروپوں نے بھی، میخائل لوبانوف کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا۔
ماسکو میں قیام پذیر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی قلمکار، الیاہ بدراتسکیس نے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے میخائل لوبانوف سے بائیں بازوں کے امریکی جریدہ ’جیکوبن‘ کے لئے بات چیت کی جو یہاں پیش کی جا رہی ہے:
الیاہ: اپنے سیاسی پس منظر کے بارے میں آپ ہمیں کچھ بتایئے؟
میخائل لوبانوف: اسکول میں مجھے تاریخ سے متعلق کتابوں، جو زیادہ تر تاریخی ناول تھے اور کچھ سائنسی کتابوں کو پڑھنے میں مزہ آتا تھا۔ گو کہ یونیورسٹی کی سطح پر میں ریاضی کا طالب علم تھا مگر میرا فارغ وقت لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں میں گزرتا جہاں کہانیوں کی کتابیں پڑھتے پڑھتے میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے مارکس، لینن اور ٹراٹسکی پڑھنے کی ضرورت ہے جسکی ایک مثال ٹراٹسکی کی کتاب ’انقلاب سے غداری‘ ہے جو میں نے ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں پڑھنا شروع کی۔ 2006ء میں مجھے سوشلسٹ تحریک ’ویپرد‘(Vpered) (فورتھ انٹرنیشنل کا روسی سیکشن) کے کارکنوں کی جانب سے ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے ایک مارکسسٹ اسٹوڈنٹ سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ پھر اگلے ڈیڑھ برس تک میں ”ویپرد“ کے ساتھ مل کر تعلیم کی کمرشلائزیشن کے خلاف اور مزدوروں کے حقوق کے دفاع کے لیے ہونے والی مختلف سر گرمیوں میں شامل رہا۔ اس سلسلے میں پارٹی کی میٹنگیں کنفیڈریشن آف لیبر آف رشیا کے دفتر میں ہوتیں جہاں میری شناسائی رشین انڈیپنڈنٹ یونینز کے ساتھ ہوئی۔
الیاہ: ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسی کارکنوں کا گروپ کیسے وجود میں آیا؟
میخائل لوبانوف: ہم لوگ یونیورسٹی کے اندر ان مسائل کی تلاش میں تھے جن کے گرد سیاسی جدوجہد کو منظم کیا جا سکے۔ 2009ء میں یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹلوں میں داخلے کے قوائد و ضوابط کو سخت بنانے کے لیے کچھ نئے قوانین نافذ کئے جس پر ہم لوگوں نے ایک احتجاجی مہم شروع کی اور سترہ سو دستخط جمع کرنے کے بعد ہم وہ قوانین منسوخ کروانے میں کامیاب رہے۔ تین ہفتوں کی اس مہم کانتیجہ یونیورسٹی میں تقریباً تیس کارکنوں کے ایک گروہ کی صورت میں نکلا جو وہاں طالب علموں کے روزمرہ کے مسائل حل کرتے مگر یہ واضح تھا کہ یہ سب کچھ تنظیم کو اگلی سطح تک لے جانے کے لیے کافی نہیں۔
اس صورتحال میں ہم نے یونیورسٹی میں موجود کمیونسٹ پارٹی کی شاخ کے ساتھ، جس میں اساتذہ اور طلبہ دونوں شامل تھے، مل کر کام کرنا شروع کیا۔ اسی دوران 2011ء میں یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک بار پھر ہاسٹلوں میں داخلے کے قوائد و ضوابط کو سخت بنانے کا قانون نافظ کر دیا لیکن اب کی بار ہماری احتجاجی مہم پہلے سے کہیں زیادہ بڑی اور طاقتور تھی جس میں سینکڑوں لوگوں نے براہ راست حصہ لیا اور ہمارا مرکز ی گروہ خاصہ بڑا ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ’ڈوما‘ (رشین پارلیمینٹ) کے انتخابات میں پیوٹن کی یونائیٹڈ رشین پارٹی کے حق میں ہونے والی دھاندلی کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ یونیورسٹی کی سطح پر یہ باہری سیاسی گرما گرمی ہمارے اپنے انیشی ایٹو گروپ (ایسا سیاسی گروپ جو ازخود حالات کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو) اور ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کی منتخب اسٹوڈنٹ کونسل، جو حکمران جماعت کی پٹھو سمجھی جاتی تھی، کے درمیان مقابلہ آرائی پر منتہج ہوا۔
ہم نے ایک طرف مستعدی سے آزادانہ طور پر باہر پارلیمانی انتخابات پر نظر رکھی اور دوسری طرف ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کی مرکزی عمارت کے پولنگ سٹیشن میں باوجود انتظامی عملے کی مداخلت کے یونائیٹڈ رشین پارٹی کی بھاری شکست کو یقینی بنایا۔
اسکے ساتھ ہی ہم نے 2011-12ء کے دوران ماسکو میں ہو نے والی تمام احتجاجی ریلیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں ان طلبہ کی ایک بڑی تعدادبھی، جو کسی خاص سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں تھی، ہمارے ساتھ ان احتجاجی ریلیوں میں شامل رہی۔
اس تجربے سے جہاں دوسری کئی چیزیں سامنے آئیں وہیں کنفیڈریشن آف لیبر کی جانب سے اجاگر کی گئی ’یونیورسٹی سالیڈیریٹی‘ ٹریڈ یونین بنانے کی اہمیت بھی ابھر کر سامنے آئی چنانچہ، ہم نے یونین کے ذریعے دیگر یونیورسٹیوں میں طلبہ اور اساتذہ کے گروپوں کی بھی مدد شروع کی۔ اسکے علاوہ ہم نے (دوسرے عوامی مسائل پربھی آواز اٹھانا شروع کی مثلاً) ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کی عمارتوں کے ارد گرد پارکس کی بقا اور ان کو (پراپرٹی) ڈویلپرز کے ہاتھوں میں جانے سے بچانے کے لیے ہونے والی مہمات میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ یوں ہم ان مقامی کونسلروں اور رہائشیوں کے ساتھ رابطے میں آئے جو اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے مصروف ہیں۔ ہم نے انکے ستاتھ مل کر مشترکہ طور پر عوامی تقریبات کا انعقاد کیا، خاص طور پر (ماسکو) کے رمینکی نا می علاقے میں۔ ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کے نتیجہ میں یونیو رسٹی حکام نے مجھے پہلے 2013ء اور پھر 2018ء میں برطرف کرنے کی کوشش کی۔
الیاہ: آپ نے اس سال کے انتخابات میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کیسے کیا؟
میخائل لوبانوف: پچھلے دس پندرہ سال میں یونیورسٹی کی ’کے پی آر ایف‘ کی برانچ سمیت رابطوں کا وسیع نیٹ ورک بنا ہے۔ مجھے تقریباًہر بلدیاتی انتخاب کے موقع پر ’کے پی آر ایف‘ کی جانب سے انتخاب لڑنے کی دعوت دی جاتی اور میں ہر بار انکار کر دیتا کیونکہ مقامی سطح کی سیاست اعلیٰ تعلیم سے متعلق میرے بنیادی ایجنڈے سے بہت دور تھی کیونکہ یہ شعبہ وفاقی قوانین کے ماتحت ہے اور اسکا بجٹ رشین اسٹیٹ ڈوما (وفاقی پارلیمنٹ) منطور کرتی ہے۔
2020ء میں یونیورسٹی کی ’کے پی آر ایف‘ برانچ کے ارکان کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے یہ واضح تھا کہ وہ مجھے اسٹیٹ ڈوما کے انتخابات میں پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میرا اپنا خیال یہ تھا کہ اگر میں ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی ڈسٹرکٹ میں موجود ان رابطوں کو جو میں نے پچھلے کچھ سالوں میں بنائے تھے کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو میں الیکشن جیت سکتا ہوں۔ مجھے یہ احساس تھا کہ اس انتخابی مہم سے خاصہ جوش و خروش پیدا کیا جا سکتا ہے مگر مجھے اسکا زرا اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب ہو گا کیسے۔ اس سے قبل جو کچھ ہم کرتے رہے تھے یہ اس سے بالکل جدا معاملہ تھا اور مجھے نہیں پتا تھا کہ انتخابات کے حوالے سے کونسے خاص اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی لیکن میں نے اپنی چھٹی حس پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
اگلے چند ماہ ہم نے انتخابات کے حوالے سے بحث میں گزارے۔ بائیں بازوں میں بہت کم لوگ ہیں جنہیں انتخابات میں حصہ لینے کا یا انتخابی عمل کا تجربہ ہو، اگرچہ ’کے پی آر ایف‘ کے پاس انتخابات کے حوالے سے تجربہ ہے مگر یہ مخصوص نوعیت کا تجربہ ہے مثلاً لوگوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور انتخابی اخراجات کے لیے پارٹی سے پیسے یا پھر کچھ دوسرے سرپرستوں سے مالی مدد کی امید رکھی جاتی ہے۔ ہمارے سامنے یہ بات واضح تھی کہ ہمیں اس حوالے سے کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہو گی۔
الیاہ: آپ کا حلقہ انتخاب کیسا تھا؟
میخائل لوبانوف: روس 225 انتخابی اضلاع میں بٹا ہوا ہے اور ہر ضلع میں اوسطاً پانچ لاکھ رائے دہندگان ہیں۔ ہمارا حلقہ ماسکو کے مغرب میں واقع ہے اور پچھلے انتخابات میں اس کی شہرت ایک احتجاجی ضلع کے طور پر رہی تھی اور ’کے پی آر ایف‘ نے بھی ماضی میں یہاں اچھی کارگردگی کا مظاہرہ کیا تھا مگر لبرلز ’Yabloko‘ یا رشین یونائیٹڈڈیموکریٹک پارٹی کو وہاں حقیقی فوقیت حاصل رہی تھی اور اس بار انھوں نے امیدوار بھی خاصہ مضبوط کھڑا کیا تھا۔
اگر اعداد و شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے باعث کسی بھی دوسرے ضلع کے مقابلے میں یونیورسٹی ملازمین اور اس سے فارغ التحصیل طلبہ کی سب سے بڑی تعداد اس ضلع میں بستی ہے چناچہ اس بات کا ایک احساس سا تھا کہ ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی ایک طرح سے اس علاقے کا ’برانڈ‘ ہے اور میری سیاستدان کے بجائے ریاضی دان ہونے کی شہرت میرے حق میں جائے گی۔
میرا خیال ہے فروری کے آس پاس یہ اعلان ہو چکا تھا کہ روسی ٹی وی ٹاک شو کے میزبان، یوگنی پوپف، یونائٹڈ رشین پارٹی کے اس حلقہ سے امیدوار ہونگے۔ یوگنی پوپوف بنیادی طور پر ایک ’ٹی وی پروپیگنڈسٹ‘ ہیں۔ ان کا کام ٹی وی پر مخالف مغربی ممالک اور یوکرین کے بارے میں کرملن (روسی حکومت) کے موقف کو پھیلانا اور لوگو ں کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹا کر بیرونی محازآرائی کی طرف مبذول کرنا اور اقوام کے درمیان نفرت کو ہوا دینا ہے۔ اپنے اطوار میں وہ بیحدمغرور شخص ہے مگر اسے بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں یہاں تک کہ میں خود اس سے مل چکا ہوں۔
الیاہ: آپ نے اپنی انتخابی مہم کس طرح چلائی اور آپ کا ’کے پی آر ایف‘ پر کس حد تک انحصار تھا؟
میخائل لوبانوف: حیرت انگیز طور پر ’کے پی آر ایف‘کی جانب سے کوئی خاص سیاسی مداخلت نہیں تھی اور ہم نے پارٹی سے بنا کسی مشاورت کے اپنا (انتخابی) پروگرام لکھا۔ ’کے پی آر ایف‘ کی جانب سے انتخابی مہم کے کل بجٹ کا صرف پندرہ فیصد حصہ مختص کیا گیا تھا۔ انھوں نے انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے امیدوارں کے لیے تربیتی نشستیں منعقد کیں جس میں یہ بتایا گیا کہ کس طرح مہم چلائی جائے مثلاً انھوں نے کراؤڈ فنڈگ یا لوگوں سے چندہ مانگنے سے منع کیا کیونکہ انکے خیال میں لوگ پیسے تو دینگے نہیں الٹا ایسا کرنے سے غیر ضروری مسائل پیدا ہونگے۔ ہم نے بہرحال ان کی یہ بات سنی ان سنی کر دی اور مہم کے دورا ن چندہ کے ذریعہ تقریباً چھ ملین روبلز (80,000 امریکی ڈالر) جمع کئے۔
حکمران یونائیٹد رشین اور اپوزیشن لبرل پارٹی کے امیدواروں نے جس قدر رقم خرچ کی اسکے مقابلے میں یہ رقم کچھ بھی نہیں تھی۔ اسکے باوجود ہمارے حوصلے بلند تھے اور ہمارے کارکن سوشلسٹ نظریات سے مخلص اور یہ سمجھتے تھے کہ ہم واقعی حکمران یونائیٹد رشین پارٹی کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہمارے پاس لگ بھگ دو سو کے قریب کارکن تھے جنھیں ہم نے پورے حلقہ انتخاب میں ٹولیوں میں تقسیم کر کے پھیلایا ہوا تھا۔
الیاہ: آپ کی انتخابی مہم کا ایجنڈا کیا تھا؟
میخائل لوبانوف: ہما را بنیادی نعرہ تھا ’صرف چند خواص کا نہیں، مستقبل سب کا ہے‘۔ روس میں کچھ لوگوں نے تمام سیاسی و معاشی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہی اپنا مستقبل بنا رہے ہیں۔ ہم سب لوگوں میں سیاسی طاقت اور دولت کی از سر نو تقسیم چاہتے ہیں۔
ان بنیادی نعروں اور وسیع تر مطالبات کے گرد ہم نے مقامی ضلعی اور ملکی سطح پر درپیش مسائل پر مشتمل ایک تفصیلی ایجنڈا تشکیل دیا جسکے اہم نکات میں ماسکو میں وحشیانہ حد تک ہونے والی کمرشل عمارتوں کی تعمیر کو روکنے کے لیے مزاحمت، کچرے کی لازمی ری سائیکلینگ، اسکولوں اور ہسپتالوں کی بندش کو روکنا اور سب سے اہم مزدوروں کے حقوق کا تحفظ اور مضبوظ ٹریڈ یونینوں کی اہمیت۔
ہم اس ایجنڈے ساتھ لوگوں کے پاس گئے اور بظاہر انکے سامنے امیدوار اور اسکی ٹیم کی ایک ایسی مثبت تصویر کشی کرنے میں کامیاب رہے جو یہ دکھاتی تھی کہ یہ لوگ جو ش و خروش کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں اور سب لوگوں سے بات چیت کے ذریعے انھیں اور وسائل کو اکھٹا کر رہے ہیں۔ لوگوں کو یہ دیکھ کر اپنائیت کا احساس ہوا کہ ایک یونیورسٹی کا تجربہ کار امیدوار جو ریاضی کا استاد ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی مہم چلانے کا ہنر بھی جانتا ہے اور جو ٹریڈیونینوں کے بارے میں اور سبزہ جات کی حفاظت کی بات کر رہا ہے۔
لوگوں کو یہ سب باتیں پسند آئیں لیکن یہاں ایک الجھن تھی۔ عام طور پر روس میں لوگ ووٹ کو حکام کے سامنے اپنا احتجاج ظاہر کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کے لیے یہ اہم ہوتا ہے کہ ہر صورت حزب اختلاف کا امیدوار جیتے چاہے اسکے خیالات و نظریات کچھ بھی ہوں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ میرے حلقہ انتخاب میں حزب اختلاف کی لبرل جماعت کا امیدوار اپنے لامحدود وسائل کے ساتھ انتخاب لڑ رہا تھا اور لوگ آخر تک یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ انہیں کس کو ووٹ دینا چاہئے۔
الیاہ: تو پھر آخرمیں نتیجہ کیا نکلا؟
میخائل لوبانوف: ہم نے یونائیٹڈ رشین پارٹی کے امیدوار کو ایک تہائی سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی۔ اس نے انتخابی مہم پر پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ اسکے انتخابی بینر ہر گلی نکڑ پر لگے ہوئے تھے اور ساتھ ہی اسے مقامی حکام کی بھی بھرپور مدد حاصل تھی۔ اس سب کے باوجود ہم نے اسے آسانی سے شکست دے دی۔ تاہم اگلی صبح الیکٹرانک ووٹنگ کے نتائج آنے کے بعد سب کچھ یکسر بدل گیا۔
الیاہ: اعداد و شمار کے حساب سے آپ کے پولنگ اسٹیشنوں پر اور الیکٹرانک ووٹنگ سے حاصل ہونے والے ووٹوں کے مابین کتنا فرق تھا؟
میخائل لوبانوف: مجھے پولنگ اسٹیشنوں سے چھیالیس ہزار ووٹ اور الیکٹرانک ووٹنگ سے بیس ہزارملے۔ دوسری جانب اسکے مقابلہ میں ’ٹی وی پروپیگنڈسٹ‘یوگنی پوپوف کو بالترتیب پینتیس ہزار اور پینتالیس سے چھیالیس ہزار ملے۔ مگر ہم الیکٹرانک ووٹنگ کے نتائج کو نہیں مانتے کیونکہ ان میں حکام کے حق میں رد و بدل کی گئی تھی۔
الیاہ: آلکسی ناوالنی (پیو ٹن مخالف حزب مخالف جماعت رشیا آف دا فیوچر کے سربراہ) کے حامیوں کی جانب سے تجویز کردہ پیوٹن مخالف ’اسمارٹ ووٹ‘میں آپ کی حمایت کی گئی تھی۔ آپ عام انتخابات میں اس حکمت عملی کے استعمال اور خود آلکسی ناوالنی کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟
میخائل لوبانوف: یہ حکمت عملی روس کے بڑے شہروں میں کارگر ہے۔ یہ بنیادی طور پر امیدوار کے خیالات و نظریات سے قطع نظر، لوگوں کو اس امیدوار کو ووٹ دینے کی ترغیب دیتی ہے جس کے سب سے زیادہ حکمران یونائیٹڈ رشین پارٹی کو ہرانے کے امکانات ہوں۔ میرے اور آلکسی ناوالنی کے درمیان گہرے نظریاتی اختلافات ہیں کیونکہ میرا تعلق بائیں بازو کی سیاست اور نظریات سے ہے۔ آلکسی ناوالنی کا ماضی میں دائیں بازو کے نظریات پریقین رکھنے والی سیاست سے تعلق رہا ہے مگر حالیہ برسوں میں اسکے خیالات میں تبدیلی نظر آئی ہے جسکا خیرمقدم کیا جانا چاہئے کیونکہ اسکا میڈیا پر خاصہ اثر و رسوخ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں اس کے حامی سماجی مسائل جیسے کم از کم اجرت کی حمایت اور ٹریڈ یونینوں کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں جسکا (ہماری جدوجہد کے حوالے سے) مثبت اثر پڑا ہے۔ اسکے باوجود ہمارے اور ان کے درمیان ایک خلیج موجود ہے اور اسکے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ، آلکسی ناوالنی کے اردگرد جمع لوگ خود اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ رجعتی ہیں۔ آپ اس صورتحال کو دیکھ سکتے جس کی وجہ سے اسے جیل جانا پڑا مگر اہم بات یہ ہے کہ اسکے جیل جانے کی بنیادی وجہ اسکی سیاسی سرگرمیاں ہیں چناچہ میں اسکی سزا کی مخالفت کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ اسے رہا کیا جانا چاہئے۔ میرے خیال میں اسکے اور ہمارے درمیان اپنے اپنے نظریات کے حوالے ایک ایماندارانہ مکالمے کی ضرورت ہے۔
الیاہ: اب انتخابات کے بعد آگے آپ کے سیاسی، ذاتی اور آپ کی مہم چلانے والے کارکنان کے حوالے سے کیا منصوبے ہیں اور آپ کے خیال میں روس کے بائیں بازو کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے؟
میخائل لوبانوف: (انتخابی مہم کے حوالے سے) ہمارے کارکنان کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا اور اب ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ انھیں مستقبل میں بدستور اپنے ساتھ کیسے جوڑ کر رکھا جائے۔ ایسا کرنا شاید تھوڑا دقت طلب ہو مگر اچھی با ت یہ ہے کہ ان لوگوں کی جانب سے مزید سرگرمیاں کرنے کی خواہش اور مطالبہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ان تمام لوگوں کے لیے انتخابی مہم میں حصہ لینا ایک طرح کا سرشاری سے بھرپور محسورکن تجربہ تھا کیونکہ ہمیں فتح ملی اور سب ہی نے اس کو فتح کے طور پر دیکھا۔ ہم نے وہ کر دکھایا جو اس سے پہلے صرف نظریہ کی حد تک محسوس کیا جا سکتا تھا اور یہ ثابت کر دیا کہ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہماری نظر اسٹیٹ ڈوما کو حاصل وسائل پر تھی اور ہم نے انتخابی مہم بھی اسٹیٹ ڈوما کے حوالے سے چلائی اور کلیکٹو (عام لوگوں کاایک ایسا گروپ جوکسی مشترکہ مسئلہ یا مسائل کے حوالے سے اکھٹا ہو اور مل جل کر اسکے حل کی کوشش کرے) کو بھی اسی کے گرد منظم کیا، لیکن ا نتخابی دھاندلیوں کے باعث ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
الیاہ: کیا آپ دوبارہ انتخابات میں حصہ لیں گے؟
میخائل لوبانوف: ہماری ٹیم میں ایسے لوگ ہیں جو مقامی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا چاہیں گے مگر ذاتی طور پر میں اس بارے میں (محدود وسائل کے باعث) ذرا احتیاط پسند ہوں کیونکہ اس میں ہماری بہت توانائی ضائع ہو سکتی ہے۔ دوسرا ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم کئی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات جیت بھی جائیں تو ہم (اپنے وسیع تر مقصد کے حوالے) اس کامیابی کا فائدہ کیسے اٹھائیں گے۔ اس کے مقابلہ میں میری ذاتی دلچسپی اس بات میں زیادہ ہے کہ کس طرح سے دستیاب وسائل اور توانائی کو استعمال کرتے ہوئے ٹریڈ یونین یا مزدور تحریک اور ’سیلف آرگنائزیشن‘ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی بیرونی مداخلت اور احکامات کے لوگوں کے کسی خاص گروہ یا کمیونٹی کو اسکے ساتھ براہ راست باہمی تعامل کے ذریعہ متحد کرنا: مترجم) کو یونیورسٹیوں میں منظم کیا جائے۔
انتخابات میں حصہ لینا کوئی برا خیال نہیں ہے آخر میں نے بھی پچھلے انتخابات میں حصہ لیا تھا تاکہ میں لوگوں تک وہ خیالات اور نظریات پہنچا سکوں جن پر میں خود یقین رکھتا ہوں، تاہم میں ہر گز یہ نہیں سمجھتا کہ ہمیں صرف انتخابات پر ہی توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔
بشکریہ: جیکوبن