یاسمین افغان
افغانستان کی کامیابیوں میں سے ایک افغانی (کرنسی) کی قدر تھی۔ گزشتہ 20 سالوں کے دوران افغانی کی قیمت خاص طور پر پاکستانی روپے کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی اور کسی نہ کسی طرح یہ بہت سے افغانوں کے لیے فخر کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جب طالبان 1996ء سے 2001ء تک افغانستان پر حکومت کر رہے تھے اس وقت 1000 افغانی ایک پاکستانی روپے کے برابر تھے لیکن نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستانی روپیہ افغانی کے مقابلے میں بہت زیادہ گر گیا۔ اس وقت 1000 پاکستانی روپے 499 افغانی کے برابرہیں۔
جیسے ہی یہ خبر سامنے آئی کہ افغانستان اور پاکستان کی تجارت پاکستانی روپے میں ہو گی تو افغانوں میں غصہ بڑھنا شروع ہو گیا۔
ایک ٹویٹر صارف سلیم نے کہا ہے کہ ”یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی کرنسی کوسودے بازی میں استعمال کریں۔“
کابل میں ایک دکاندار نے اپنے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھ سے کہا کہ ”میں صرف افغان کرنسی استعمال کروں گا۔ اگر ہم پاکستانی روپیہ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم افغانستان میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی شمولیت کو قبول کرتے ہیں۔“
ایک فیس بک صارف عبدالباقی وردک نے لکھا کہ ”اگر یہ پاکستان کا فیصلہ ہے تو بطور ڈاکٹر میں پاکستانی دوائی تجویز نہیں کروں گا اور نہ ہی پاکستانی مصنوعات خریدوں گا۔“
ایک اور فیس بک صارف حیات اللہ صافی نے کہا کہ ”بطور افغان فخر کرنے والا کوئی بھی انسان پاکستانی روپے کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ ہمیں اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔“
کابل کے ایک اور رہائشی نے مجھے بتایا کہ ”پاکستان کبھی بھی ہم پر اسی طرح اپنی کرنسی مسلط نہیں کر سکتا جس طرح انہوں نے طالبان کو مسلط کیا، جلد یا بدیر ہم ان دونوں سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے۔“
ایک خاتون ڈاکٹر مرزیا (فرضی نام) بتایا کہ ”افغانی افغانوں کے لیے آخری چیز ہے۔ انہوں نے ہماری جمہوریت چھین لی، ہماری سیکورٹی فورسز کو تباہ کیا، عورتوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کیا، تقریر کی آزادی نہیں ہے اور اب چاہتے ہیں افغانی کو پاکستانی روپے سے تبدیل کریں۔ وہ ہمیں توڑنا چاہتے ہیں اور یہ تکلیف دہ ہے۔“
انکی بہن نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”نئی مسلط کردہ حکومت ہر اس چیز اور ہر کامیابی کو ختم کرنا چاہتی ہے جس پر افغانوں کو فخر تھا۔“
کچھ سوشل میڈیا صارفین نے پہلے ہی یہ رجحان شروع کر دیا ہے کہ افغانی ہماری قومی شناخت ہے اور چاہتے ہیں کہ افغان اس مقصد میں شامل ہوں۔