خرطوم (جدوجہد رپورٹ) سوڈان کی فوج نے پیر کے روز عبوری حکومت کی کابینہ کے بیشتر اراکین کو گرفتار کرتے ہوئے عبوری حکومت کو تحلیل کر دیا ہے۔ اقتدار پر فوجی قبضے کے خلاف شہری سڑکوں پر نکل آئے ہیں جہاں فائرنگ اور ریاستی تشدد کے واقعات میں متعدد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
’رائٹرز‘ کے مطابق فوج اور شہریوں کے درمیان طاقت کے اشتراک کیلئے قائم خودمختار کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو ملک کی حفاظت اور سلامتی کے تحفظ کی ضرورت ہے اور کونسل کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ”ہم مسلح افواج کے اقتدار کو جمہوری ہاتھوں میں منتقل کرنے کے عزم کی ضمانت دیتے ہیں، جب تک اقتدار سویلین منتخب حکومت کے حوالے نہیں کیا جاتا، یہ صورتحال برقرار رہے گی۔“ وزارت اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عبداللہ ہمدوک کو فوجی اقدام کی حمایت میں بیان جاری کرنے سے انکار کے بعدحراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
وزارت اطلاعات نے جنرل عبدالفتاح البرہان کے اعلان کو فوجی بغاوت قرار دیتے ہوئے مزاحمت کی اپیل کی ہے۔ وزارت اطلاعات کی جانب سے کی گئی اپیل کے بعد فوجی قبضے کے مخالف دسیوں ہزار لوگ سڑکوں پر نکل آئے، خرطوم میں واقع فوجی ہیڈکوارٹر کے قریب مظاہرین پر فائرنگ کی گئی ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق جھڑپوں میں کم ازکم 80 افراد زخمی ہوئے ہیں، تاہم یہ تعداد اس سے کئی زیادہ ہو سکتی ہے۔ دارالحکومت خرطوم کے جڑواں شہر عمدرمان میں نوجوان مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے سویلین حکمرانی کی حمایت میں نعرے لگائے ہیں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی بندش کے باعث بڑے اجتماعات کو منظم کرنے میں مشکلات کا بھی سامنا دکھائی دے رہا ہے۔
مظاہرین میں شامل 21 سالہ ایمان احمد نے کہا کہ ”ہم آخر تک جمہوریت کا دفاع کرینگے۔“ یاد رہے کہ 2 سال قبل عمر البشیر کا تختہ الٹنے کے بعدفوجی اور سویلین گروپوں کے درمیان بدعنوانیوں کا شکار سوڈان میں گزشتہ ماہ فوجی بغاوت کے ایک سازش ناکام ہوئی تھی۔
2 سال قبل عمر البشیر کے طویل المدتی اقتدار کو سڑکوں پر مسلسل احتجاج کے ذریعے ختم کیا گیا تھا۔ عمر البشیر 3 دہائیوں تک اقتدار پر قابض رہے تھے۔ وزارت اطلاعات نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ فوجی دستوں نے خودمختار کونسل کے سول ارکان اور حکومتی اراکین کو گرفتار کیا ہے۔
واضح رہے کہ سوڈان گزشتہ لمبے عرصے سے گہرے معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے، افراط زر ریکارڈ صورتحال میں ہے اور بنیادی اشیا کی قلت ہے۔ بین الاقوامی امداد کے باعث اس بحران میں کچھ کمی کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم مغربی ریاستوں نے خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی فوجی قبضہ امداد کو خطرے میں ڈالے گا۔
گزشتہ ہفتے کابینہ کے کئی اراکین نے فوجی حکمرانی کے امکان کے خلاف خرطوم سمیت دیگر شہروں میں منعقدہ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی تھی۔