لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈویلپمنٹ اور دیگر کئی بین الاقوامی ماحولیاتی انصاف تنظیموں کی کال پر سینکڑوں موسمیاتی کارکنوں نے لاہور aمیں مارچ کیا۔ سول سوسائٹی، سماجی تحریکوں، ٹریڈ یونین اور کسانوں کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکن موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مارچ لاہور پریس کلب کے قریب شملہ پہاڑی سے شروع ہو کر ایوان اقبال پر اختتام پذیر ہوا۔
مارچ کے شرکا نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور زبردست نعرے لگا رہے تھے اور دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دے رہے تھے کہ وہ آب و ہوا سے متعلق چیلنجوں پر بامعنی اقدامات اٹھانے کے لیے اکٹھے ہوں۔ پلے کارڈز پر اس ماہ کے شروع میں ہونے والی ’COP26‘ میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے ”ماحولیاتی انصاف ابھی، فضائی آلودگی ختم کرو، لاہور کو صاف کرو، 100 فیصد قابل تجدید توانائی: لوگوں اور کمیونیٹیز کے لئے، کوئلے سے بجلی بنانا بند کرو، فاسل فیول سے انرجی بنانا نامنظور، فاسل فیلوز کو فنڈ کرنا بند کرو،“ کے نعرے درج تھے۔ مارچ کے شرکا نے موسمیاتی ہنگامی صورتحال کا پیغام دینے کے لیے ”ماحولیاتی انقلاب چاہیے آلودگی نہیں“ کے نعرے والی سرخ قمیضیں بھی پہن رکھی تھیں۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے فاروق طارق نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سال گلاسگو میں ’COP26‘ چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے۔ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سالانہ 100 بلین ڈالر کا ہدف پورا نہیں ہو سکا ہے جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم نے موسمیاتی تحفظ کے لیے اپنی تمام تر تشویش کے ساتھ ’COP26‘ اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ فاروق نے مزید کہا کہ: 19 ممالک کے فوسل فیول پر مبنی منصوبوں کو روکنے کے وعدے کے باوجود، بڑے فوسل فیول کارپوریشنز اب بھی دنیا بھر میں کوئلے اور جیواشم ایندھن پر مبنی منصوبوں کی لیز، کان کنی اور ان پر عمل درآمد میں مصروف ہیں۔
عرفان مفتی کنوینر جائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس نے کہا کوئلے سے بجلی بنانے کے تمام منصوبوں کے معاہدوں کو جلد از جلد منسوخ کیا جائے۔ فاروق طارق نے کہا کہ موسمیاتی بحران نے مہنگائی کو جنم دیا ہے۔ تیل گیس اور کوئلے کو بن جلی بنانے کے لئے مہنگے داموں امپورٹ کیا جاتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں کو آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگا کیا جاتا ہے اور مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بجلی بنانے کے ذرائع میں خود کفالیت صرف اور صرف ہوا اور روشنی سے بجلی بنانے کی ترجیح سے ہی ہو سکتی ہے۔
ماحولیات کے نامور ایڈووکیٹ اور کارکن احمد رافع عالم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو صرف سیاسی جماعتوں اور حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کو اس سے نمٹنے کے لیے آگے آنا ہو گا۔ انہوں نے کہا اگرچہ عمران خان نے گزشتہ سال کوئلے سے بجلی بنانے کو مرحلہ وار ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن چین کے تعاون سے منصوبے ابھی تک جاری ہیں۔ کوئلہ، گیس اور آئل سے بجلی بنانا مہنگا بھی اور فضائی آلودگی کا باعث بھی۔ ان فاسل فیولز سے توانائی بنانے کے منصوبے ختم کئے جائیں۔ ہوا اور روشنی میں پاکستان خود کفیل ہے۔ ان سے سولر اور ونڈ پاور منصوبوں سے بجلی بنائی جائے جو ماحول دوست طریقہ کار ہے۔
تعمیر نو ویمن ورکرز آرگنائزیشن کی رہنما رفعت مقصود نے کہا موسمیاتی تحریک کو ملک کے کونے کونے تک پھیلانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہا کہ ماحولیاتی انصاف کی تحریک کو از سر نو منظوم کیا جا رہا ہے۔ محنت کش عورتیں اس تحریک میں پیش پیش ہوں گی۔
حقوق خلق تحریک کی ترجمان عائشہ احمد نے کہا کہ ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے میں حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے پاکستان کا دوسرا بڑا شہر لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس سے حکمران پی ٹی آئی حکومت کے بلین ٹری سونامی کے دعوے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ ریور راوی فرنٹ جیسے ماحول دشمن منصوبوں سے لاہور کا ماحول مذید آلودہ ہو گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریور راوی فرنٹ منصوبہ فوری منسوخ کیا جائے اور کسانوں سے زمینیں چھیننا فوری بند کیا جائے۔
ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ سے وابستہ ایک اکیڈیمک ضیغم عباس نے کہا کہ سرمایہ دارانہ پیداوار کی بنیادی تبدیلی کے بغیر موسمیاتی تبدیلیوں پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیات کو بنیادی طور پر بڑی کارپوریشنز نے تباہ کیا ہے جنہوں نے ماحولیات کے بجائے منافع کو ترجیح دی ہے۔
ڈاکٹر عمار علی جان کنوینر حقوق خلق موومنٹ نے کہا ماحول خراب کرنے اور سموگ میں مسلسل اضافہ بڑے کارخانوں کی جانب سے ماحول دوست اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ بھٹوں کو بند کرنا اس کا حل نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوتے ہیں۔ بھٹوں کو زگ زیگ پر لانے کا عمل جاری رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ تمام کارخانوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے فضلے کو اس طرح ضائع کریں کہ ماحول خراب نہ ہو۔ کارخانوں کے دھویں اور ٹرانسپورٹ کے لئے گندا ترین آئل استعمال کرنے سے ماحول مسلسل خراب ہو رھا ہے، اس کا فوری سدباب کیا جائے۔
لاہور ماحولیاتی انصاف مارچ اس وقت نکالا گیا ہے جب سکاٹ لینڈ میں COP26 سربراھی اجلاس کے فیصلے ماحول کو صاف کرنے کے ضروری اقدامات اٹھانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ پورے ایشیا میں موسمیاتی انصاف کے مطالبے کے لیے عروج پر ہیں۔ 8 نومبر کو سات ایشیائی ممالک میں بیک وقت ہونے والی 500 سے زیادہ مظاہروں اور جلوسوں میں ہزاروں افراد شامل ہوئے ہیں۔ منیلا، فلپائن میں جلوس سے خطاب کرتے ہوئے، قرض اور ترقی پر ایشیائی عوامی تحریک (APMDD) کے عالمی کوآرڈینیٹر لیڈی نیکپل نے کہا کہ ہم COP26 میں ممالک کو تیز رفتار اور منصفانہ ماحول دوست منتقلی کے نفاذ کے لیے ایک طاقتور مطالبہ بھیجنا چاہتے ہیں۔ کڈی نیکپل نے کہا کہ فاسل فیولز سے ایندھن بنانے پر مکمل پابندی کے لئے امیر ممالک کو فوری طور پر گلوبل ساؤتھ کو مناسب موسمیاتی مالیات فنڈ فراہم کرنا ہو گا جس کا انہوں نے بار بار مطالبہ کیا ہوا ہے۔
ماحولیاتی انصاف مارچ میں شریک ہونے والی تنظیموں میں ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈویلپمنٹ، جائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس، آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن، پاکستان کسان رابطہ کمیٹی، حقوق خلق موومنٹ، پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو،عورت مارچ، خواتین محاز عمل لاہور، ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ، لیبرایجوکیشن فاؤنڈیشن، پاکستان بھٹہ مزدور یونین پنجاب، بانڈد لیبر لیبریشن فرنٹ، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان، کلائمیٹ ایکشن ناؤ، ہوم نیٹ پاکستان، ساؤتھ ایشیا فری میڈیا اسوسی ایشن، ای جی ایچ ایس، کرافٹر فاؤنڈیشن اور تعمیر نو ویمن ورکرز آرگنائزیشن شامل تھیں۔