شاعری

درک اندیش

اقبال حیدر

اے آبنائے رنگ و بو
سرعت سرا، رفتاربیں
منزل سرا، آثار گیں
انکار خو، دستار جوُ
اے جوئے بار کفر و دیں
آمرزگار خشمگیں
دل، دل فضا، لب لب کشا
پھر بھی سبھی کی آرزو
فطرت کے جیسے چاندنی، مسلک کہ جیسے آب جو
عالم کا عالم روشنی
رنگ رخ زیبائے تو
اے خواہشِ روزِ ازل، اے کاوشِ سوز ابد
توہی ثمر، توہی عبث، کیا ابتدا، کیا انتہا
کیا خا مشی، کیا گفتگو
اے آبنائے رنگ و بو
صدیوں کی صدیاں دم بخود، لہروں کی لہریں بے سکت
ساعت کی ساعت بے رفو، لمحہ سراغِ زندگی
اے آبشار آگہی، اے رودبار جستجو
کس کو تمنا سے مفر
خواہش، خلش، ہستی، فنا
حیلہ، بقا، مذہب، خدا
کچھ ہے پتا، کچھ لاپتا
لا یعنی ہے سب گفتگو
ہر وہم ہے سر یقیں، اور عقل شاہد جستجو
معدوم ہے زادِ سفر
اک دل نہیں بے آرزو
معلوم کی سرکارمیں کیا سوچنا، کیا گفتگو
سودا جنوں، باقی حذر
قدریں بدلتی آئی ہیں، قدریں بدلتی جائیں گی
سب کچھ ہی بدلا جائے گا
نہ یہ خبر، نہ وہ خبر، کیسا جنوں، کیسا حذر
اب سوچ کے ایوان میں
ہے اور ڈھب کی گفتگو، ہلچل سی ہے اک چار سو
وہ علم ہے بے دست و پا
جس علم سے تھی شست و سو
اک مصنوعی ادراک ہے
ہونے لگی ہے گفتگو
مچنے لگی ہے ہاؤ ہو
اب کس طرف لے جائے ہے دیکھیں یہ دیدہ یہ لہو
معدوم ہے زادِ سفر
خود کو حوالے کر دیا
ہم بھی تھے کیسے چارہ گر
نہ چارہ گر، نہ دیدہ ور
اے آبشارِآگہی، اے رودبارِ جستجو
”کیسے“پہ سارا زور ہے
”کیوں“ سے ہے اب صرفِ نظر، سن رودبارِ گفتگو
اے جوئے بارِ سرمدی
جاری رہے یہ دھن، یہ گت
ہستی ہے بس ذوقِ نمو
اک سچ یہی، باقی غلط
انسان جنسِ معتبر
تو مجھ سے ہے، میں تجھ سے ہوں، اللہ ہو، اللہ ہو
کب تک چلے یہ سلسلہ، کب تک رہے یہ گفتگو
اے آبنائے رنگ و بو
جس سے رہی خیرہ نگاہ، دھندلا گیا وہ آئینہ
اُس بندگی کی خیر ہو جس کو رہی فکر جزا
بچتا نظر آتا نہیں، سرچشمہ جود و سخا
جاری رہے یہ دھن، یہ گت
عقل و خرد کی آرزو، اے جوئے بار رنگ و بو
اے خواہش روز ازل، اے کاوشِ سوزِ ابد
کھلنے کو ہے سر یقیں، مٹنے کو ہے ہر فاصلہ
ملنے کو ہے دنیا و دیں، ہر ”نہ“ میں ہاں، ہر ”ہاں“ نہیں
اے رود بار آگہی، اے آبشار جستجو، اے آبنائے رنگ و بو

Iqbal Haider
+ posts

اقبال حیدر اردو نثر اور نظم دونوں اصناف کے معروف مصنف ہیں۔ پاکستان سے نقل مکانی کر کے کینیڈا آئے اور وہیں قیام پذیر ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں، کیلگری، کینیڈا میں اس شعبے میں ملازمت کی اور نجی کاروبار بھی شروع کیا۔’جوش لٹریری سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی جس کے تحت جوش، قمر رئیس، فیض اور مجاز پر بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد کر چکے ہیں۔ شاعری کے مجموعہ ”آسمان بھی ہے“ کے خالق ہیں۔ نثر میں بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ”نادیدنی ہوں جوش“ اور مضامین کے کئی مجموعے بھی شامل ہیں۔ کانفرنس کے مقالات پر مشتمل کتاب ”In Conjugation of Arts and Science“ کے مدیر بھی ہیں۔