آج فیض احمد فیض کا 37 واں یوم وفات ہے۔ اس موقع پر معروف شاعر ندا فاضلی کا یہ مضمون از سر نو پیش کیا جا رہا ہے۔
ندا فاضلی
حالی پانی پتی نے اپنے عہد میں مرحوم ہوتی دہلی کا ایک مرثیہ لکھا تھا۔ اس مرثیہ میں ایک شعر یوں ہے۔
داغ و مجروح کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز
حالی کے دور میں بلبل کا ترانہ داغ اور میر مہدی مجروح سے منسوب تھا، ہمارے ماضی قریب میں یہ ترانہ اگر کسی سے منسوب کیا جاسکتا ہے تو وہ نام صرف فیض احمد فیض کا ہوگا۔ فیض کو حال سے ماضی بنے ہوئے اب تک وقت کا بڑا حصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران عالمی سیاست ہی تبدیل نہیں ہوئی ہے، سیاسی نظریات کے تعلق سے انسانی سوچ کے زاویوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں در آئی ہیں۔ مہاتما بدھ نے 2600سال پہلے کہا تھا تبدیلی جیون کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی بھی تبدیل ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ بلبلیں بھی بدلتی ہیں اور ان کے ترانے بھی۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ آج مسائل پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں، عالمی طاقتوں کے عدم توازن نے دنیا کو پہلے سے زیادہ آنسو اور فریاد، دہشت اور فساد، افغانستان اور بغداد بنادیا ہے۔ وہ مذہبی سیاست جو برصغیر کے میدانوں تک محدود تھی اب دنیا کے بڑے حصے کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور نئی نئی سرحدوں کے قیام نے اُس ارض حسین کو ہی دنیا سے غائب کر دیا ہے جسے ترقی پسندی کے ابتدائی دور میں ستارے سلام کرتے تھے۔
مری نگاہ میں ارض ماسکو مجروح
وہ سر زمین فرشتے جسے سلام کریں
فیض کی حیات کی کائنات جو نظریاتی لحاظ سے سیاہ و سفید حصوں میں منقسم تھی، جس نے ایک طرف ہریالی تھی، دوسری طرف پامالی ہی پامالی تھی، اس میں اب اور کوئی خانوں کا اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن تعمیر و تخریب کے اس مسلسل زمانی عمل کے باوجود فیض کے کلام اور اس کے احترام کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آئی۔ قرۃ العین حیدر نے فیض کی حیات میں لکھا تھا۔
ہر عہد اپنے ایک شاعر کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ یہ فیض صاحب کا دور ہے اور یہ دور نقشِ فریادی کی اشاعت کے دور سے چلا آرہا ہے فیض کی شاعری کبھی کمہلا نہیں سکتی۔ یہ ایسی شاعری ہے جسے میر، غالب اور اقبال بھی پسند کرتے اور پنجاب کے بلھے شاہ، وارث اور بابا فرید بھی۔“
یہ درست ہے فیض کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔ وہ ایک مخصوص سیاسی مسلک کے شاعر تھے۔ اس سماجی رویہ نے اُن کے یہاں فکری کشادگی بھی پیدا کی ہے۔ لیکن جب وہ اس وفاداری کا راست اظہار فرماتے ہیں تو وہ اپنے بنیادی شعری مزاج سے دور ہیں۔
یہ مظلوم مخلوق جب سر اُٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
کوئی ان کو احساس ذلت دلادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے
(کُتّے)
یہ نظم یا اس طرح کی دوسرے تخلیقی کوششوں پر اگر فیض کا نام نہ ہو تو انہیں آسانی سے حبیب جالب، نیاز حیدر یاکیفی اعظمیٰ کے ناموں سے جوڑا جاسکتا ہے۔ فیض صاحب کے بارے میں روسی زبان کے مشہور شاعر سرکوف کی رائے ہے۔
”فیض احمد فیض نے ایک انقلابی حیثیت سے خود اپنی زندگی کو ایک نغمہ میں ڈھال لیا ہے اور اسے جدوجہد کا ایک مؤثر ہتھیار بنا لیا ریڈیو ماسکو سے نشرکیے جانے والے ایک طویل انٹرویو میں (جسے لدمیلاواسی لیوا نے ترتیب دیا ہے) فیض صاحب کے نام سے جو لفظ شامل ہیں وہ یوں ہیں۔”ترقی پسند ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ آزادی اور امن کی خاطر رجعت پرستی کے خلاف جدوجہد کے ہر اول دستے میں صف بند ہوں۔ اس بیان میں بھی رجعت پرستی جدوجہد ہر اول دستہ جیسے الفاظ فیض کے مجموعی شعری مزاج کی عکاسی نہیں کرتے۔ ادب و معاشرہ کا رشتہ یوں تو ادبی تاریخ کے کسی دور میں منقطع نہیں ہوا۔ اور یہ ممکن بھی نہ تھا۔ ہاں اس رشتہ کی تشریح و تریف عہد۔ بہ عہد ضرور بدلتی رہی ہے۔ پہلے جو رشتہ شاعر کے جذبہ و احساس دور حالات وواقعات کی(کبیر داس کے لفظوں میں) آنکھن دیکھی سے پھوٹتا تھا سن ۶۳۔۵۳ تک آتے آتے ایک نظریہ اور منشور کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اس طرح ادب بھی زمینی سرحدوں کی طرح ٹکڑوں میں تقسیم ہونے لگا۔ کوئی ادب برائے ادب کا نعرہ لگانے لگا اور کوئی ادب برائے زندگی کا پرچم اٹھانے لگا۔ یہ اختلافات تخلیقی ادب کے محدود تصور کے شاخسانے تھے۔ دونوں خیموں کے اپنے پیمانے تھے۔ میراجی ادب میں معاشرہ کی شمولیت سے انکار کرتے تھے۔ اس کی؟ ضد میں سجاد ظہیر ہر جگہ سرخ رنگ کا پرچار کرنے لگے۔ دونوں کی اپنی دلیلیں تھیں۔ مگر ان دلائل میں جو کمی تھی وہ یہ تھی کہ دونوں محاذ انتہا پسندیوں میں موضوع اور اس کی خارجی صورت کو نشانہ بناتے تھے۔ مگر ادب کی تخلیقی بنیادوں سے بحث کرنے سے کتراتے تھے۔ بحث خیال فکر کے اردگرد گھومتی تھی۔ خیال و فکر کس طرح شاعری کا روپ لیتے ہیں، ان سوالوں کے جواب یا تو کسی کے پاس نہیں تھے یا انہیں ان کی ضرورت نہیں تھی۔ شاعری ہو یا افسانہ ہو یا ادب کی دوسری اصناف وہ صرف خیال کی ترسیل ہی نہیں کرتیں۔ ترسیل کی جمالیاتی معیار پر بھی اصرار کرتی ہیں۔ کیا کہا گیا ہے کہ ساتھ جو کہا گیا ہے وہ کیسے کہا گیا ہے کی بھی اہمیت ہوتی ہے اور اسی اہمیت سے ادبی معیار کا تعین ہوتا ہے۔ ایک جملہ ہے آدمی پیدا ہوتا ہے مرنے کے لیے۔ ان چند لفظوں میں جو خیال ہے وہ زندگی کی بہت بڑی لیکن صرف بڑی حقیقت ہونے سے یہ جملہ شاعری کے ذیل میں نہیں آتا۔ اس کی شاعری بنانے کے لیے تخلیقی اسلوب کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ۱۴ ویں صدی کی ابتدائی کھڑی بولی کے شاعر کبیر داس کا ایک دوہا ملاحظہ کریں جس میں اسی خیال کو نظم کیا گیا ہے۔
چلتی چاکی دیکھ کر دیا کبیرا روئے
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت بچانہ کوئے
دوہے کے ساتھ مززا نوشہ کا شعر بھی ذہن میں لائیے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایا ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی جو پنہاں ہو گئیں
ادب و غیر ادب کا معیار صرف موضوع کے اظہار کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی جمالیاتی ترتیب و تنظیم سے طے ہوتا ہے اسی برتاؤ کو شعری اسلوب کہتے ہیں۔ فیض کا سرمایہ فیض کا اسلوب ہے۔ یہ اسلوب خوبصورت رنگا رنگ اور خوش آہنگ ہے۔ اس اسلوب کی شائستگی میں عوامی زندگی کے گرم و سرد کی گنجائش کم ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے ان کے لب و لہجہ کی تخلیقیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔ اس معیار کو نظر میں رکھا جائے تو تنقیدی اختلافات بے معنی محسوس ہوتے ہیں۔ ادب زندگی کی مصوری ہے اور زندگی کی پہچان ایک چہرہ سے نہیں ہوتی۔ زندگی تو بہ یک وقت ہزار چہروں کا نگار خانہ ہے۔ کسی ایک شاعر سے پوری زندگی کے محاصرہ کا مطالبہ تنقیدی پہلو تو پیدا کر سکتا ہے تخلیق کی تخلیقی جہت سے اس کو کوئی سروکار نہیں۔ نظیر اکبر آباد سے میر کی دردمندی کی مانگ یا داغ و سلامت میں فکر اقبال کی تلاش ایسے ہی اعتراضات ہیں۔ کسی کے پاس کیسا آئینہ ہے اور وہ اسے اپنے اور اپنے معاشرہ کے سامنے کس زاویہ سے رکھتا ہے۔ یہ فنکار کی آزادی کا انفرادی فعل ہے جس کا احترام لازم ہے۔ اس آزادی کے دائرہ میں کون لفظوں کو کن رنگوں سے رنگتا ہے ان سے جو تخلیقی تحیر جاگتا ہے شاعر کے تعلق سے اسی کو موضوع بحث بنانا چاہیے۔ لیکن یہ عمل ہماری تنقید میں کم کم ہی نظر آتا ہے۔ لغت وہی ہوتی ہے جو شاعر کے وجود سے پہلے وجود میں آچکی ہوتی، اس مشترک لغت سے لیے ہوئے الفاظ کے شخصی برتاؤ سے ہی شاعر کا ادبی معیار و وقار قائم ہوتا ہے۔ انیس شہدائے کربلا کے ساتھ اپنی عقیدت سے انہیں لفظوں کو جگماتے ہیں۔ نظیر میلوں ٹھیلوں کی چہل پہل سے سجاتے ہیں، غالب فکری تشکیک سے ان کو گرماتے ہیں، اقبال کا یقین کی پاکیزگی سے ان کی آب و تاب بڑھاتے ہیں۔ فراق انہیں لفظوں میں کرشن کی روحانیت سے غزل کا نیا چہرہ بناتے ہیں اور فیض انہیں لفظوں میں اشتراکیت کی شمع جلاتے ہیں۔ فیض کی ترقی پسندی کے کارواں میں ان کے ہم راہ اور بھی بہت سے ہم سفر تھے۔ انہوں نے خود کئی جگہ ان ہم سفروں میں سردار جعفری، مجاز، مخدوم، جاں نثارم جذبی، سکندر علی وجد کے نام گنائے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ سب اسی سیاسی مسلک اور نظریہ کے حامل شعراء ہیں جو فیض کے عقائد میں بھی شامل تھے۔ لیکن ان میں فیض کا شعری کردار اس وقت بھی جب وہ حیات تھے اور اب بھی جب ان کے ساتھ پوری نسل یادوں کا سرمایہ بن چکی ہے، پورے عہد کی شناخت بن چکا ہے۔ فیض کی یہ شناخت ان کے یہاں موضوع سے زیادہ اس غنائی، تہہ دار اور خواب و حقیقت کے امتزاج سے تراشے ہوئے اسلوب کی وجہ سے ہے جو نقشِ فرادی کی اشاعت سے بدتدریج دائرہ در دائرہ پھیلتا رہا ہے۔ اس اسلوب میں شاعر کی شخصیت کے تعمیری عوامل نے اپنے اظہار کے لیے صرف الفاظ کے انتخاب اور ان کے شخصی معافی سے ہی کام نہیں لیا ہے، لفظوں میں شامل حرفوں کی اصرات سے بھی تہذیبی فضا سازی کی ہے۔ وہ لفظوں کی رائض معنویت سے بچانے کے لیے انہیں علامتی استعاراتی، تلمیحاتی اور کہیں کہیں سُر ریسٹک اشکال سے سجاتے بھی ہیں۔ سخن میں ماورائے سخن کی فضا پیدا کرنا فیض کا آرٹ ہے۔ جس کے مقلد تو بہت ہیں حریف کوئی نہیں۔ اس طرز اظہار کے ابتدائی نقوش جو ان کی شروع کی تخلیقی کاوشوں میں ظاہر ہونے لگے تھے ان میں اقبال کی حکمت کے بجائے اختر شیرانی کی محبت کے اثراتے ملتے ہیں۔ اختر شیرانی سے اس ذہنی قربت نے انہیں اس بلند آہنگی سے دور رکھا جو ان کے اکثر ہم عصروں کے یہاں نظر آتی ہے۔ خود فیض بھی اپنے کمزور شعری لمحوں میں اس کے شکار ہوئے ہیں۔ ترقی پسند شاعری کا بڑا حصہ اقبال اور جوش کے اثرات کی وجہ سے تعلیم و تبلیغ سے بھرا پڑا ہے۔ فیض کے علاوہ بہت کم ایسے نظر آتے ہیں جن کے یہاں تعمیر میں ان کی تربیت و پرورش کا بھی ہاتھ رہا ہے اور ان کے ساتھ وہ تہذیبیں بھی کار فرمارہی ہیں جو انہوں نے شعور کے واسطے سے حاصل کی تھیں۔ فیض کی شاعری کا کمال جو ان کی مقبولیت کا بھی ضامن ہے یہ ہے کہ انہوں نے راشد اور اختر الایمان کے برعکس روایت سے رشتہ توڑے بغیر اس کی توسیع سے اپنی آواز کو گہرا اور خوش رنگ بنایا ہے۔ اس میں میر بھی ہیں سودا بھی ہیں، غالب بھی ہے۔ مگر فیض کے انداز و اعجاز کے ساتھ وہ انحراف کے نہیں اعتراف کے شاعر ہیں۔ وہ لسانی جدت کی جگہ روایت کے تسلسل میں جدت و ندورت نکھارنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ان کی آواز مانوس ہوتے ہوئے اجنبیت کے حسن اور اجنبی ہوتے ہوئے مانوسیت کے حسن کے لیے ہوئے ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے ان پر اعتراض کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے۔ فیض فکروحکمت کی گہرائیوں سے شاید شعوری طور پر گریز کرتے ہیں۔ ورنہ جس طرح انقلاب ان کی آہنگ میں ڈھل گیا ہے، اس طرح وہ فکری شاعری کو بھی فنی جمالیات کا ایک شعبہ بنادیتے ہیں۔
حکمت، انقلاب یا فکری شاعری جیسی اصطلاحات سے بحث کرنے کے بجائے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ فن میں خبر کی اُس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک وہ بے خبری کے دائرہ میں نہیں آتی، 18 ویں صدی کے صوفی شاعر سراج اورنگ آبادی نے اس مسئلہ کو اپنی ایک غزل کے مطلع میں ادا کیا ہے۔
خبر اے تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جورہی سو بے خبری رہی
فیض بے خبر کی حکمت کو بے خبری کی حرارت سے پگھلا کر لفظوں میں شعریت جگائی ہے۔ ان کا اسلوب ایک چہرہ میں کئی چہروں کو چھپائے ہوئے ہوتا ہے جس کی پہچان کے لیے انداز نظر میں تبدیلی ضروری ہے۔ اس فضا میں اترنا بھی لازم ہے و مصرعوں کی لسانی ساخت سے نمودار ہوتی ہے۔
سو رہی ہے گھنے درختوں پر چاندنی کی تھکی ہوئی آواز یہ رات اس درد کا شجر ہے جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے۔
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے کی مقبولیت نے ان کے عہد میں ایک آبسیشن کی صورت اختیار کر لی تھی۔ مجھے بمبئی کی ایک محفل یاد آرہی ہے۔ یہ ۸۷۹۱ء کی بات ہے۔ ان دنوں کی ان کے کئی مشہور ہم عصر حیات تھے۔ اس محفل میں جو فہمی ہستیوں اور شاعروں کی ملی جلی نشست تھی۔ فیض کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ جس طرح قاسمی صاحب نے ان کے کلام کو فکر و حکمت سے عاری بتایا تھا اور وزیر آغا نے اپنی کتاب نئی نظم کی کروٹیں میں راجہ مہدی علی خان کو بانس پر چڑھایا تھا اور فیض کو انجماد کی مثال ٹھہرایا تھا۔ بمبئی کی اس محفل میں سردار جعفری ان کی شہرت میں پاکستان ٹائمز اور لوئس کی ادارت اور پنڈی کنسپریسی کیس کے اثرات دکھارہے تھے۔ مجروح ترقی پسند غزل میں فیض کے مقابلہ میں اپنی اہمیت جتارہے تھے اور رشید حسن خان اور ظ انصاری کے حوالوں سے فیض کی زبان و بیان پر انگلی اٹھارہے تھے اور فیض دور دور سے یہ سب سنتے ہوئے جام پر جام چڑھارہے تھے اور سگریٹ پر سگریٹ سلگارہے تھے اور جب کلام سنانے آئے تو کلام سنانے سے پہلے مسکراتے ہوئے فرمارہے تھے۔ بھائی ہم کیسے قصور وار ہوئے۔ دکانیں تو سب نے ایک ساتھ لگائی تھیں۔ اب اس کو کیا کہا جائے۔ کسی کی چل گئی، کسی کی نہیں چلی۔ فیض نے اس رات مذاقاً جو کہا تھا وہ تخلیق ادب کا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ بھارت میں ایک نیم سرکاری ادارہ ہے، ساہتیہ اکاومی جوہر سال ملک کی ۸۱ زبانوں کے تخلیقی ادب پر انعامات دیتی ہے۔ یہ انعامات ایک فنکشن میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس میں ہر انعام یافتہ کو ایک پیپر بھی پڑھنا ہوتا ہے۔ 1998ء میں میرے پرچے کے شروع کے جملے تھے۔
تخلیقی عمل قدرت کا ایک معجزہ ہے۔ اگر یہ فنکار کی دسترس میں ہوتا تو کوئی ادیب و شاعر اپنی پسند سے دوسرے درجہ کا آرٹسٹ ہونا پسند نہیں ہوتا کوشش سب کرتے ہیں۔ یہ ضروری بھی ہے۔ لیکن ہر کوشش کا نتیجہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہو یہ ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غالب جیسے عظیم شاعر کے چنے ہوئے اشعار سے پہچانا جاتا ہے اور چھ دیوانوں کے شاعر میرکوان کے بہت سارے میں سے کچھ سے ہی جانا جاتا ہے۔
فیض صاحب کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ میں یہ کہنا بھی ضروری مانتا ہوں کہ معجزہ قدرت کی نعمت ہے لیکن اس کی حفاظت کی ذمہ داری انسان کی محنت دریافت پر ہوتی ہے۔ فیض کے دور میں مجاز، ساحر، جذبی، مجروح کی مثالیں سامنے ہیں۔ ان سے کسی کی شعری ذہانت سے انکار مشکل ہے۔ لیکن ذہانتوں کی مناسب آبیاری کے بغیر تخم سے انکر تو تو پھڑتا ہے، انکر سے درخت نہیں بن پاتا۔ فیض قدرت کی نعمت سے سرفراز بھی تھے اور اس کے باشعور محافظ بھی تھے۔ انتظار حسین نے درست کہا ہے۔
”فیض صاحب سفر کرتے کرتے اس مقام تک آپہنچے ہیں کہ بڑکا درخت لگتے ہیں۔ ہمارے یہاں لکھنے والوں کی تخلیقی عمراتنی کہاں ہوتی ہے۔ کسی نے اگر ا پنی قوت نمو کو برقرار رکھا ہے اور پھل پھول کر بڑ کا درخت بن گیا ہے تو ہمارے ادب کے لیے مبارک بات ہے۔“
فیض اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی ترجیحات میں شعر گوئی کو ہمیشہ اولیت حاصل رہی ہے۔ نقشِ فریادی سے مرے دل سے مسافر تک زندگی نے ان کے ساتھ بھلے ہی جو سلوک کیا ہو انہوں نے اپنی شاعری اور اس کے مزاج سے کچھ زیادہ بدسلوکی نہیں کی۔ فیض ترقی پسند تھے۔ وہ ادب میں سماجی مقصدیتکے حامیوں میں تھے لیکن اپنے ادب کے ذریعے مقصدیت اور ادبیت کے رشتے کی جو جمالیاتی سطح انہوں نے دریافت کی تھی اس نے اردو دنیا میں ایک مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اس کردار نے ترقی پسند دور میں لکھی گئی۔ تنقید کو بھی سمت وفتار کا احساس دلاہا تھا۔ فیض کی وسیع مقبولیت کا راز بھی رشتہ کی اسی طرح کا ہمراز ہے۔ شروع میں ان کا رمز آشنا، استعاراتی اور خصوصاً غزل کی برسوں پرانی تہذیب میں رچا بسا انداز ایک حلقے میں ہدف ملامت بھی بنا۔ لیکن وقت کے ساتھ وہ ساری گلہ مندیاں دور ہوتی گئیں۔ سردار جو پہلے ان کے مختلف انداز پر معترض تھے۔”یہ داغ داغ اجالایہ شب گزیدہ سحر“ پر ان کی تنقیدی کافی مشہور بھی ہوئی انہوں نے کہا تھا، اس طرح کی نظم جن سنگھی اور مسلم لیگی دونوں کہہ سکتے ہیں۔ بعض میں انہوں نے اپنی غلطی کا ازالہ یوں کیا کہ انہوں نے اپنی کتاب’ایک خواب اور‘ کی بشیتر نظموں میں اپنے انفرادی اور زمینی لہجہ کو چھوڑ کر فیض کے انداز کو اپنالیا۔ قتلِ آفتاب، پیراہن شرر اور دیگر تخلیقات میں ان اثرات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ راشد نے نقشِ فریادی کے دیباچے میں لکھا ہے۔
نقشِ فریادی ایک ایسے شاعر کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے جو رومان اور حقیقت کے سنگم پر کھڑا ہے فیض نے اس سنگم سے اپنا رشتہ کبھی نہیں توڑا۔ انہوں نے انقلاب کو دیگر ہم عصروں کی طرح نعرہ نہیں بنایا۔ اسے ہمیشہ ایک خواب دیکھنے والے مغنی کی طرح گایا اور سنایا۔
فیض کا کلام اگر قارئین سے روایتی اندازِ قرأت میں تھوڑی تبدیلی کا تقاضہ کرے تو نامناسب نہیں۔ فیض ہی کا شعر ہے۔
ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
فیض کی طرز فغاں آج ہماری روایت کا حصہ ہے۔ ہماری شعری تاریخ کا ایک قصہ ہے۔ جو اپنے عہد میں بھی مقبول تھی اور اب بھی کئی جانے پہچانے شاعروں کی آوازوں میں اس کے رنگ و آہنگ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس طرز فغان کارشتہ سماج کے اس طبقے سے نور لیا ہے جس میں وہ پلے بڑھے تھے۔انہوں نے فیشن کے طور پر اوروں کی طرح اپنی بنیادی سرشست سے بے وفائی نہیں کی۔ یہ ہی ان کے معیار و اعتبار کا اقرار ہے۔ وسیع ہوتی شعری کائنات میں جس میں اب تیسری دنیا کے کئی پوشیدہ گوشے ابھر کر سامنے آنے لگے ہیں، ان کی شاعری بھلے ہی نئے قدموں کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکے۔ لیکن وہ ہمارے ماضی کی ان یادوں میں ہمیشہ شریک رہیں گے جو ہمارے حال کی بنیادوں میں شامل ہے۔
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے