نثار شاہ
5 اگست 2019ء کو نریندرا مودی کی حکومت کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے اب تک سرینگر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ ریاست سے آنے والی خبروں کے مطابق مودی حکومت کے انتہا پسندانہ، غیر جمہوری اور یکطرفہ فیصلے کیخلاف محبوس کشمیری عوام کا شدید رد عمل آنے کے خوف کی وجہ سے مودی حکومت کرفیو ہٹا کر معمول ِزندگی بحال کرنے سے کترا رہی ہے۔ دوسری طرف بھارت کی جمہوری اور سیکولر سیاسی جماعتوں کی طرف سے مودی حکومت کے فیصلے پر شدید تنقید جاری ہے۔ موجودہ حالات اور درست تناظر کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے موجودہ حالات کا تاریخی پس منظر میں تجزیہ کیا جائے۔
موجودہ ریاست جموں کشمیر انگریزوں اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان 16 مارچ 1846ء کو ہونے والے معاہدہ امرتسر کے نتیجے میں تشکیل دی گئی تھی۔ معاہدے کے مطابق جموں سے تعلق رکھنے والے گلاب سنگھ نے سکھوں اور انگریزوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سکھ دربار کی شکست پر عائد ہونے والے تاوان کا کچھ حصہ تقریباً 75 لاکھ روپے نانک شاہی لاہور کے سکھ دربار کی جگہ ادا کر کے جموں، کشمیر اور گلگت کے علاقے انگریزوں سے لیے تھے۔ ان علاقوں پر جموں کشمیر کے نام سے نئی ریاست تشکیل دی گئی تھی۔
معاہدہ امرتسر 9 مارچ 1846ء کو ہونے والی لاہور ٹریٹی کا نتیجہ تھا۔ جو پنجاب کے سکھوں کی انگریزوں سے لڑائی میں شکست کے بعد انگریزوں اور لاہور دربار کے درمیان ہوئی تھی۔ اس معاہدے کے مطابق انگریزوں نے سکھوں پر جنگ کا تاوان عائد کیا تھا۔ جس کاکچھ حصہ ادا کر کے گلاب سنگھ نے انگریزوں سے یہ علاقے لیے تھے۔
برٹش انڈیا میں ریاست جموں کشمیر کو پرنسلی اسٹیٹ ہونے کا اسٹیٹس حاصل تھا۔ اسی اسٹیٹس کی وجہ سے 3 جون 1947ء کے تقسیم ِبرصغیر کے منصوبے کے اعلان کے بعد ریاست کو براہ راست انڈیا اور پاکستان کا حصہ بنانے کی بجائے یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرے۔ ریاست کا اس وقت کاحکمران مہاراجہ ہری سنگھ انڈیا اور پاکستان کا حصہ بننے کی بجائے ریاست کو خودمختار رکھنے کا حامی تھا۔
تقسیم ِبر صغیر اور پاکستان کے وجود میں آنے کے فوری بعد مہاراجہ نے ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار رکھنے کی خاطر معاہدے کی خواہش کا اظہار کیا جس کے جواب میں پاکستان نے مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے ساتھ 15 اگست 1947 ء کو ’Agreement Stand Still‘ کرتے ہوئے ریاست کے ساتھ برابری کے تعلقات رکھنے کا عہد کیا۔ جبکہ ہندوستان نے جواب نہ دیا۔ مہاراجہ حکومت کے ساتھ معاہدہ ہونے کے باوجود پاکستان نے حالات کی خرابی کا بہانہ کرتے ہوئے 22 اکتوبر 1947ء کو قبائلی لشکر مظفرآباد شہر میں داخل کر دئیے۔ خون خرابہ شروع ہو گیا۔ قبائلی لشکروں نے مظفرآباد سے سرینگر کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی۔
دوسری طرف جموں کے مختلف علاقوں میں سردار ابراہیم اور دوسرے مقامی سہولت کاروں کی قیادت میں غیر مسلموں کا قتل عام جاری رہا۔ قبائلی لشکر جب سرینگر کے نزدیک پہنچے اورجب وہاں موجود مہاراجہ ہری سنگھ کو صورتحال کی نزاکت کا احساس ہوا تو اس نے پاکستان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہندوستان سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔
ہندوستان نے کشمیر میں داخل ہونے کے قانونی جواز کیلئے مہاراجہ ہری سنگھ سے با ضابطہ الحاق کی دستاویز پر دستخط کا مطالبہ کیا۔ بھارت نے اس معاہدے میں کشمیر کی معروف عوامی قیادت نیشنل کانفرنس کے رہنما شیخ محمد عبداللہ کی مشاورت کو بھی ضروری قرار دیا۔ اس طرح 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ عارضی الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے۔ جس کے بعد 27 اکتوبر 1947ء کو انڈین فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں اور قبائلی یلغار اورپاکستانی فورسز سے موجودہ کنٹرول لائن چکوٹھی تک کا علاقہ واپس لے لیا۔
اس طرح انڈیا اور پاکستان کے درمیان باضابطہ لڑائی شروع ہونے کے بعد انڈیا جنوری 1948ء کو یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے فلور پر لے گیا۔ اقوام متحدہ نے فوری مداخلت کی اور دونوں ممالک میں جنگ بندی کراتے ہوئے 13 اگست 1948ء کو کشمیر پر پہلی قرارداد پاس کی جس کے مطابق دونوں ممالک کو کہا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کی زیرنگرانی کشمیر میں رائے شماری کرائیں گے۔
اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق پاکستان کو کہا گیا کہ وہ اپنی تمام فوج بشمول سویلین جبکہ انڈیا اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ کشمیر سے نکالے گا۔ تاکہ اقوام متحدہ کے نمائندوں اور سرینگر حکومت کے زیر اہتمام رائے شماری کرائی جائے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق کی روشنی میں انڈین قبضے کو غلط قرار نہیں دیا گیا۔
بعد ازاں 1954ء میں انڈیا نے کشمیری قیادت کے مطالبے پر الحاق انڈیا کی دستاویز کی روشنی میں ریاست جموں کشمیر کو اسپیشل اسٹیٹس دیتے ہوئے انڈین آئین میں کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 کو شامل کیا جبکہ آرٹیکل 35A اسٹیٹ سبجیکٹ رول (باشندہ ریاست کا قانون) کو تحفظ دینے کیلئے آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ باشندہ ریاست کا قانون 1928 ء میں بنایا گیا تھا جس کے مطابق کشمیر میں جائیداد کی ملکیت اور خرید و فروخت کا حق صرف باشندہ ریاست کو حاصل تھا۔ تنازعہ کشمیر کے بعد انڈیا نے نہ صرف باشندہ ریاست کے قانون کو تحفظ دیا بلکہ آرٹیکل 370 کے تحت تین مرکزی سبجیکٹ دفاع، کرنسی اور فارن پالیسی کے علاوہ ایک مکمل با اختیار اسمبلی دے دی جس نے ریاست کا آئین اور جھنڈا تشکیل دیا۔ اس طرح کشمیریوں کو مکمل اندرونی خودمختاری دے دی گئی۔ اس آئین کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے سیٹیں مخصوص کر دی گئیں۔
دوسری طرف آزاد کشمیر پر 24 اکتوبر 1947ء کو ایک غیر جمہوری اور غیر تسلیم شدہ حکومت مسلط کر دی گئی۔ جبکہ گلگت بلتستان کو 28 اکتوبر 1949ء کو حکومت پاکستان نے کراچی پیکٹ کے ذریعے براہ راست اپنے قبضے میں لے کر آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا۔ اس طرح آزادکشمیر پر پاکستان اور اس کی پروردہ مسلم کانفرنس کے ذریعے غیر جمہوری حکمران مسلط کیے جانے لگے۔
دوسری طرف گلگت بلتستان کو اسپیشل فورس اور کمشنری نظام کے تحت کنٹرول کیا جانے لگا۔ 1974ء میں گلگت بلتستان سے اسٹیٹ سبجیکٹ رول کو خاموشی کے ساتھ پاکستان نے ختم کر دیا جبکہ ان دونوں علاقوں پر ریاستی باشندوں کی بجائے کالونیل طرز پر پاکستان سے بھیجی جانے والی بیوروکریسی مسلط کر دی گئی۔ جو آج تک ان علاقوں کے مقدر کی مالک اور والی وارث کے طور پر یہاں کے عوام کے حقوق پر مسلط ہے۔ جسے آزادکشمیر پکارہ جاتا ہے اس کی آزادی کا عالم یہ ہے کہ 1970ء میں پہلی مرتبہ اس علاقے کے حوالے سے آزاد جموں کشمیر انٹرم ایکٹ 1970ء بنایا گیا جسے بعد ازاں ایکٹ 1974 ء میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس ایکٹ کے مطابق تمام اہم سبجیکٹ‘وزارت امور کشمیر اور کشمیر کونسل کے پاس ہیں اس طرح گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ 2009ء میں گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈیننس 2009ء کا نفاذ ہوا۔یہ بھی آہنی ہیت میں مکمل ’کالا قانون‘ ہے۔
کشمیر کی ہندوستان میں نسبتاً خود مختار حیثیت کی وجہ سے 1988ء سے جاری مسلح جدوجہد اور ہزاروں کشمیریوں کی موت کے باوجود بھی دنیا نے ہندوستان کے سیاسی موقف کی مخالفت نہیں کی بلکہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حد تک تشویش کا اظہار کیا۔ لیکن مودی حکومت کے موجودہ اقدام نے انڈیا کو بھی قانونی طور پہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کشمیر پر جابرانہ قابض کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ مودی حکومت نے جس طرح کشمیر میں کرفیو نافذ کر کے بنیادی انسانی حقوق کو معطل کرنے کے بعد دفعہ 370 میں ترمیم کا اقدام اٹھایا ہے اسے کسی بھی طور پر درست جمہوری اور منصفانہ فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف نہ صرف انڈیا کی اپوزیشن پارٹیاں اور دانشور سراپا احتجاج ہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی تنقید کر رہے ہیں۔
لیکن کشمیر کی تحریک کی تباہی کی بنیادی وجہ اس تحریک کو انتہا پسند مذہبی گروپوں کے ذریعے ایک پراکسی وار میں تبدیل کرنا تھا۔ یوں کشمیر کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار صرف انڈیا نہیں ہے بلکہ کئی کشمیری گروہ خود بھی ہیں جو موجودہ عالمی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے جدوجہد کو سائنسی خطوط پر استوار کرنے کی بجائے سرد جنگ کے عہد کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ موجودہ عہد سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کا عہد ہے جس میں عالمی معاشی و سیاسی طاقتوں کے تمام تر مفادات معاشی بنیادوں پر استوار ہیں۔ ہندوستان جیسی بڑی معاشی طاقت سے اقتصادی رشتوں کو داؤ پر لگا کر کوئی ملک بھی کشمیر کو پاکستان بنانے میں مدد گار نہیں بنے گا۔ الٹا انڈیا کے موجودہ اقدام سے لگتا ہے کہ پاکستان موجودہ پوزیشن پر ہی ہندوستان کو رضا مند کر کے گلگت بلتستان کو ضم کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان جس طرح سے اس مسئلے کو ختم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اس سے یہ مسئلہ ختم ہونے کے بجائے خون خرابے کا باعث ہی بنے گا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں قوموں کی حق خوداردیت کاسوال حقیقی معنوں میں حل ہونا ممکن نہیں۔ کیونکہ ظالم اور مظلوم قوم کے درمیان رشتہ معاشی و طبقاتی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا تمام تر نقصان ہندوستان، پاکستان اور کشمیر کے محنت کش طبقات برداشت کر رہے ہیں۔ حکمران طبقات کیلئے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ لہٰذا ان ممالک کے محنت کش طبقات ہی آگے بڑھ کر کشمیریوں کو حقیقی آزادی دلوا سکتے ہیں۔