لاہور (جدوجہد رپورٹ) اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ اجلاس میں خطاب کے بعد ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم پاکستان عمران خان تنقید کی زد میں ہیں۔ ملالہ یوسفزئی نے بھی عمران خان کو جواب دیتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ طالبان پشتونوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ”طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف جدوجہد کے دوران میں مرتے مرتے بچی ہوں۔ ہزاروں پشتون کارکنوں اور عمائدین نے طالبان کے خوف کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے جانیں قربان کی ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔ ہم پشتونوں کی نمائندگی کرتے ہیں، طالبان نہیں۔“
ملالہ یوسفزئی کے علاوہ دیگر پشتون رہنماؤں اور ترقی پسند کارکنوں نے بھی عمران خان کی تقریر کے بعد ان پر شدید تنقید کی ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم پاکستان اپنی تقاریر اور بیانات کی وجہ سے پہلی مرتبہ تنقید کی زد میں نہیں ہیں، اس سے قبل بھی وہ متعدد ایسے بیانات اور انٹرویوز دے چکے ہیں جن پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے قبل وہ حقانی نیٹ ورک کو ایک پشتون قبیلہ قرار دے چکے ہیں، خواتین کے خلاف جنسی تشدد کی وجہ فحاشی کو قرار دے چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک انٹرویو کے دوران کالعدم تحریک طالبان کو پشتون تحریک قرار دے چکے ہیں۔
یاد رہے کہ اتوار کو منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں جہاں وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں انسانی بحران کے ممکنہ خطرات کو سامنے لاتے ہوئے امداد کی اپیل کی۔ وہیں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے افغان کلچر کو سمجھنے کی بھی بات کی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سمجھنا ہو گا کہ جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہر سوسائٹی مختلف ہے۔ ہر سوسائٹی میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کو مختلف انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ میں آپ کو پاکستان کے خیبر پختونخوا صوبے کی مثال دیتا ہوں جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ وہاں کا کلچر مختلف ہے اور افغانستان سے ملتا جلتا ہے کیوں کہ طالبان کی اکثریت بھی پشتون ہے اور ہمارے یہاں پشتونوں کی زیادہ تعداد موجود ہے۔ وہاں شہری اور دیہاتی علاقوں کا کلچر بالکل مختلف ہے۔ جیسے کابل شہر کا کلچر ہمیشہ (افغانستان کے) دیہاتی علاقوں سے مختلف رہا ہے۔ ویسے ہی پشاور کا کلچر بھی افغانستان کی سرحد سے ملحقہ (پاکستانی) اضلاع سے مختلف ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم بچیوں کے والدین کو وظیفہ دیتے ہیں تاکہ وہ بچیوں کو پڑھنے کے لیے سکول بھیجیں۔ لیکن اگر ہم اپنے قبائلی اضلاع جو افغانستان کی سرحد سے ملحقہ ہیں کی ثقافتی روایات کی حساسیت نہ رکھیں تو پھر وظیفوں کے باوجود وہ بچیوں کو سکول نہ بھیجیں۔ لیکن اگر ہم ان کی ثقافت کا احترام کریں تو وہ وظیفے کے بغیر بھی بچیوں کو سکول بھیجنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ تو میرے خیال میں جب ہم انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس معاملے کی حساسیت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔‘