لاہور (جدوجہد رپورٹ) رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) اور افغان انڈیپنڈنٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن (اے آئی جے اے) کے ایک مشترکہ سروے میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان میڈیا کی ہیت میں بنیادی تبدیلیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔
15 اگست سے اب تک کل 231 میڈیا اداروں کو بند کرنا پڑا ہے اور 6400 سے زائد صحافی اپنے ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ خواتین صحافیوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے اور ہر 5 میں سے 4 خواتین صحافی اب کام نہیں کر رہی ہیں۔
سروے کے مطابق افغان میڈیا پر طالبان کے قبضے کا اثر ڈرامائی رہا ہے۔ ہر 10 میں سے 4 سے زیادہ میڈیا آؤٹ لیٹس ختم ہو چکے ہیں اور 60 فیصد صحافی اور میڈیا ملازمین اب کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ 84 فیصد خواتین صحافی اپنی ملازمتیں کھو چکی ہیں۔ طالبان کے اقتدار پر قبضے سے قبل کی صورتحال کے اعداد و شمار افغانستان میں کام کرنے والے میڈیا اور صحافیوں کے ایک سروے میں سامنے آئے تھے، جو طالبان کے ملک پر کنٹرول سنبھالنے سے کچھ عرصہ قبل کیا گیا تھا۔
سروے کے مطابق افغانستان میں موسم گرما کے آغاز میں 543 میڈیا آؤٹ لیٹس میں سے نومبر کے آخر تک صرف 312 کام کر رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ 43 فیصد میڈیا آؤٹ لیٹس 3 ماہ کے عرصہ میں غائب ہو گئے ہیں۔
صرف 4 ماہ قبل زیادہ تر افغان صوبوں میں کم از کم 10 نجی ملکیت والے میڈیا آؤٹ لیٹس تھے، تاہم اب کچھ علاقوں میں تقریباً کوئی مقامی میڈیا نہیں ہے۔
پہاڑی شمالی صوبے پروان میں میڈیا کے 10 ادارے تھے لیکن اب صرف 3 کام کر رہے ہیں۔ مغربی شہر ہراب اور آس پاس کے صوبے میں 51 میں سے صرف 18 آؤٹ لیٹس اب کام کر رہے ہیں۔ یہاں میڈیا آؤٹ لیٹس میں کمی کا تناسب 65 فیصد رہا ہے۔ وسطی کابل کے جس علاقہ میں اگست سے پہلے سب سے زیادہ 148 میڈیا آؤٹ لیٹس کام کر رہے تھے، تاہم اب 51 فیصد کمی کے بعد صرف 72 رہ گئے ہیں۔
سروے کے مطابق 7 افغان صوبوں میں طالبان کے قبضے کے بعد کم از کم 60 فیصد میڈیا بند ہو چکا ہے۔ میڈیا کی سرگرمیوں کی بندش یا کمی کی وجہ سے میڈیا کے شعبے میں روزگار پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ اگست کے آغاز میں افغان میڈیا میں کام کرنے والے 10790 افراد (8290 مرد اور 2490 خواتین) میں سے صرف 4360 (3950مرد اور 410 خواتین) اس وقت کام کر رہے ہیں۔
ملک کے 6 صوبوں میں 3 چوتھائی مرد صحافی ملازمتوں سے محروم ہوئے ہیں، تاہم ملک کے 34 صوبوں میں سے 15 میں اب کوئی خاتون صحافی کام نہیں کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر شمالی صوبے جوزجان میں 112 خواتین کو ملازمتیں دینے والے 19 میڈیا آؤٹ لیٹس تھے، لیکن اب کام کرنے والے 12 آؤٹ لیٹس میں کوئی بھی خاتون کو ملازمت نہیں دے رہا ہے۔
آر ایس ایف کے مطابق بہت سے علاقوں کو کنٹرول کرنے والے طالبان مقامی میڈیا پر ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جن میں سے کسی بھی خاتون صحافی کو ملازمت نہ دینا شامل ہے۔ میڈیا کا منظر نامہ اب بڑی حد تک خواتین صحافیوں سے خالی ہے۔ یہاں تک کہ کابل جیسے علاقوں میں بھی اب خواتین صحافیوں کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ طالبان کے کابل پہنچنے اور خواتین کو گھر میں رہنے کے احکامات جاری کرنے کے چند ہفتوں میں 100 خواتین صحافیوں نے کام پر واپس آنے کی ہمت کی، دیگر خواتین صحافی گزشتہ 2 ماہ کے دوران کام پر واپس آئی ہیں۔ تاہم اگست کے آغاز میں افغان دارالحکومت میں کام کرنے والی 190 خواتین صحافیوں میں سے 73 فیصد کمی کے بعد اب صرف 320 خواتین صحافی کام کر رہی ہیں۔