مظفر آباد (جدوجہد رپورٹ) پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)کے سربراہ منظور پشتین کے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حدود میں داخلے پر 3 ماہ کیلئے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
بدھ 22 دسمبر کو محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ 5 ایم پی او ایکٹ 1985 کے تحت چیئرمین پشتون تحفظ موومنٹ منظور احمد پشتین کے آزاد جموں و کشمیر (پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر) کی جغرافیائی حدود میں داخلے اور تقریر پر پابندی عائد کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ پابندی 3 ماہ کیلئے موثر رہے گی۔
یاد رہے کہ ایک قوم پرست طلبہ تنظیم این ایس ایف (آزاد) نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ انکے کنونشن منعقدہ ضلع کوٹلی میں منظور پشتین بطور مہمان خصوصی شرکت کرینگے۔ چند روز قبل مذکورہ تنظیم کے ذمہ داران نے منظور پشتین سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں اس کنونشن میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی تھی۔
مذکورہ تنظیم کی طرف سے ہی منظور پشتین نے کنونشن میں شرکت کے حوالے سے اعلان بھی کیا ہے۔ تاہم منظور پشتین نے ابھی تک اس بابت کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی انہوں نے مذکورہ کنونشن میں شرکت کیلئے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر آمد کے حوالے سے کوئی تصدیق یا تردید کی ہے۔
منظور پشتین کی ممکنہ آمد کی خبریں سوشل میڈیا پر چلنے کے بعد اخبارات میں ’سول سوسائٹی نمائندگان‘ اور ایک سیاسی تنظیم کے بیانات شائع ہو رہے تھے، جن میں مطالبہ کیاجا رہا تھا کہ منظور پشتین کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔ بدھ کے روز محکمہ داخلہ کی جانب سے پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ کی جانب سے نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کو غیر جمہوری اور آمرانہ سوچ کا عکاس قرار دیا جا رہا ہے۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر خلیل بابر نے ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک پر امن سیاسی کارکن جو جمہوری اور شہری حقوق کی بازیابی کیلئے سیاسی جدوجہد میں مصروف ہے، اسکے سیاسی نظریات، سوچ یا فکر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن کسی کو بھی ایک پر امن سیاسی پروگرام میں شرکت سے روکنا، کسی خاص علاقے میں کسی پر امن سیاسی کارکن کے داخلے پر پابندی عائد کرنا ایک غیر جمہوری، آمرانہ اور ظالمانہ اقدام ہے۔ یہ بدترین ریاستی دہشت گردی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ بظاہر آزاد کہلانے والی حکومت کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں، یہ سب کو معلوم ہے، اخبارات کے مالکان کو دباؤ ڈال کر ’سول سوسائٹی‘ کے نام سے خبریں لگوانا اور مخصوص طریقے سے سامنے لائے گئے سیاسی نمائندوں کے ذریعے سے درخواست بازی کروا کر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جانا، کچھ نامعلوموں کے مذموم مقاصد کو ظاہر کر رہا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ یہ جو روش اپنائی گئی ہے، اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور جمہوری حقوق پر پابندیوں سے معاشرے کو اس قدر گھٹن زدہ کرنے سے گریز کیا جائے کہ گھٹن سے ابھرنے والے طوفان سب کچھ بہاکر لے جائیں۔