ناصر اقبال
ملکی تنگ معاشی، سماجی اور سیاسی حالات کے پیش نظر لوگ اپنے اپنے ملک چھوڑ کر عارضی اور مستقل طور پر دوسرے ملکوں میں سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔ انہیں عام طور پر تارکین وطن، سمندر پار یا انگلش کا ایک خاصا جامع لفظ (Diaspora) یعنی تارکین وطن مگر منتشر یا بکھرے ہوئے کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔
آج کی دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے اپنے اپنے تارکین موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اسوقت دنیا کے کل تارکین وطن کی تعداد 27 کروڑ 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تار کین وطن کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پہلے دس نمبروں میں 1 کروڑ 75 لاکھ تارکین وطن کے ساتھ انڈیا پہلے نمبر پر، دوسرے نمبر پر میکسیکو اس کے بعد بالترتیب چین، روس، شام، بنگلہ دیش، پاکستان، یوکرائن، فلپائن اور افغانستان شامل ہیں۔ اس حساب سے پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جس کے 90 لاکھ شہری دنیا کے مختلف ملکوں میں بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح 10 بڑے میزبان ملکوں میں بالترتیب امریکہ، جرمنی، سعودی عرب، روس، برطانیہ، عرب امارات، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا اور اٹلی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کا چارٹر جہاں آزادانہ ہجرت کی وکالت کرتا ہے وہاں جائے پیدائش پر رہنے کو بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل کرتا ہے۔ یہ ایک اور علیحدہ سے بڑی بحث ہے کہ کس طرح ریاستیں اور معاشرے انسانوں کے جائے پیدائش پر رہنے کے جیسے بنیادی انسانی حق کا تحفظ بھی نہ کر پائے اور نتیجے کے طور پر ان کے شہری غیر ممالک میں طرح طرح کی صعوبتیں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انسان غاروں سے میدانوں تک اور گاؤں سے شہروں اور پھر دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کے عمل سے مسلسل نبرد آزما ہے۔ اولین ادوار میں انسان کے ایک ہی جگہ پر پیدائش اور رہائش کے دورانئے بڑے تھے۔ مثال کے طور پر ایک قبیلہ پانچ سات سو سال ایک ہی جگہ قیام کرتا اور پھر ہجرت کر جاتا۔ دور جدید میں انسانی ہجرت کا عمل اس قدر تیز ہو چکا ہے کہ ایک ریسرچ کے مطابق آج دنیا بھر میں ایک ہی مکان یا گھر میں رہنے والے افرا د کا کنبہ محض 30 یا 35 سال میں یکسر تبدیل ہو جاتا ہے یعنی پرانے رہائشی کہیں اور ہجرت کر جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے لوگ رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ ہجرت خواہ مجبوری سے ہو یا شوقیہ دکھوں اور مسائل کی ایک مکمل داستان ہوا کرتی ہے۔ دنیا جہاں کے ادب میں ہجرت کے مسائل کو ایک خاص زمرے ’ہجر اور وچھوڑے‘ کے طو ر پر نظم، نثر، غزل، کتھک، داستان گوئی، ماہیے، ڈھولے، ٹپے اورجگنی وغیرہ میں بیان کیا گیا ہے۔ سلطان باہو کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں:
شالامسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاں توں بھارے ہو
تاڑی ما ر اڈا نہ باہو، اساں آپے اڈن ہارے ہو
خطے کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ساؤتھ ایشیا انسانی ہجرت کے معاملے میں دنیا میں نمبر ایک پر ہے جس کے تاریخی ڈانڈے ہڑپہ، موہنجو داڑو اور میسوپوٹیمیا کے مابین باقاعدہ ملتے ہیں۔ انگریزی عہد میں ہجرت کے عمل میں تیزی آئی اور بیشمار وجوہات کی بنا پر بڑی تعداد میں لوگ افریقہ، یورپ، امریکہ حتیٰ کہ بحر ہند میں واقع چھوٹے بڑے جزائر میں بھی جا بسے۔ آج ان کی نسلیں بس اتنا ہی جانتی ہیں کہ ان کے اجداد برصغیر سے آئے تھے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے بیان کردہ تارکین کے تازہ اعداد و شمار کی نسبت تارکین وطن کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کو پانچ یا چھ درجات میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلے نمبر پر وہ تارکین ہیں جو دوسرے ممالک میں بس گئے اور وہاں کی شہریت حاصل کی اور پاکستان سے رشتے ناطے ترک کر لیے بقول فراز’سلسلے توڑ گیا سبھی وہ جاتے جاتے‘۔
دوسرے نمبر پر وہ تارکین ہیں جنہوں نے غیر ملکی شہریت تو حاصل کر لی لیکن پاکستان سے ناطہ نہیں توڑا رشتے داریاں، کاروبار اور جائیداد وغیرہ بقول پھر فراز کہ ’ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے‘۔
تیسرے نمبر پر وہ تارکین ہیں جو عرب ممالک میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں اور ان کے پاس غیرملکی شہریت کا کوئی سوال نہیں ہے۔
چوتھا گروپ جس کی تعداد خاصی کم ہے ان میں طالب علم اور غیر قانونی تارکین شامل ہیں جنہیں غیر ملکی شہریت مل بھی سکتی ہے اور ڈی پورٹ ہونے کے امکانات بھی ہیں۔
ان کے علاوہ تقریباً 11 ہزار پاکستانی شہری دنیا کے مختلف ممالک کی جیلوں میں قیدوبند ہیں (بحوالہ روزنامہ ڈان 24 اپریل 2019ء)
ان تمام سمندر پار پاکستانیوں کی ملک سے جانے کی کہانی بھی ایک جیسی ہے اور آنے کی بھی۔ اپنا ملک کوئی بھی انسان خوشی سے نہیں چھوڑتا۔ معاشی وسماجی مشکلات کے پیش نظر کسی نے جائیداد فروخت کی تو کسی نے زیورات کو رہن رکھا یا منت سماجت سے قرض لے کر پردیس جانے کا بندوبست کیا۔ یہ شاید دنیا کی روایت ہے کہ کسی بھی نئے آنے والے کو کبھی بھی دل سے خوش آمدید نہیں کہا جاتا اور ان کے راستے میں ہمیشہ ہی روڑے اٹکائے جاتے ہیں لہٰذا ہمارے سمندر پار جانے والے بھائی بھی مشکلات کا شکار ہوئے اور ابھی تک ہیں۔
اب واپسی کی کہانی سنیں۔ عام طور ایک یا دو مہینے کی چھٹی گزارنے کے لیے ہمارے بھائی ملک واپس آتے ہیں ائر پورٹ پر کسٹم سمیت تمام عملہ لوٹ کھسوٹ کے لیے ہمہ وقت تیار، ٹیکسی والوں کے تین چار گنا زیادہ دام۔ خدا خدا کر کے مسافر گھر اور عزیزو اقارب سے میل ملاقاتیں شروع۔ عزیز و اقارب میں سے عام طور پر چند حضرات باقاعدہ ’شکار‘پر ہوتے ہیں۔ مختلف حیلے بہانوں سے یا محض اللہ واسطے میں ہی ان کی باقی ماندہ جیب بھی صاف کر دیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کے اپنے گھر والے بھی ان کی بھیجی گئی رقوم کو مناسب طریقے سے خرچ نہیں کرتے۔
پاکستان میں تمام رہائشی کالونیاں یا سکیمیں صرف سمندر پار پاکستانیوں کا لوٹنے کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں باقاعدہ ایک ایسا طبقہ یا گروہ وجود پا چکا ہے جس کا مقصد حیات ہی تارکین وطن سے کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال لوٹنا ہے۔ قبضہ مافیا، مخصوص میڈیکل ٹیسٹنگ لیباٹریز اور انسانی سمگلروں کے غول بھی اسی سرکٹ کا حصہ ہیں۔
اپنے گوناں گوں مسائل اور اپنی حب الوطنی کے پیش نظر سمندر پاکستانیوں نے سیاست میں دلچسپی بڑھائی تا کہ ان کے جملہ مسائل کا کوئی تدارک ہو سکے۔ دبئی، لندن، میلان، فرینکفرٹ اور نیو یارک وغیرہ میں سیاست دانوں کے پرتپاک سواگت ہونے لگے۔ یوں ابھرتے ہوئے سیاسی قائدین کی بھی چاندی ہونے لگی اور پھر دیکھا دیکھی منجھے ہوئے سیاستدانوں نے بھی چندے کی کاپیاں چھپوا لیں۔
پاکستان میں 1980ء کے بعد بننے والی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں میں سمندر پار پاکستانیوں کی سرمایہ کاری یا اعانت کو واضع طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ جن خطوط پر ہمارے بھائی سیاست میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں ان سے کوئی مثبت اور قابل ذکر تبدیلی ممکن ہے یا نہیں۔
اس ضمن میں ابھی تک کی جو کامیابیاں ہیں انہیں ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔ پہلی کامیابی جسے سمندر پار پاکستانیوں کی تقریباً خالص پراڈکٹ کہا جا سکتا ہے وہ ہمارے سب کے پیارے گورنر صاحب ہیں جن کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ دروغ برگدن راوی مشہور ہے کہ وہ اپنی حاضر سروس گورنری کے دوران اپنے آبائی گاؤں میں اپنے بھائی کی زمین پر ناجائز قبضہ ختم نہ کرا سکے اور ان کے سیاسی حلیف اور حریف روزانہ کی بنیاد پر افواہوں کا بازار گرم کیے رکھتے ہیں کہ ابھی وہ ’تھے‘ہوئے کے ہوئے یعنی گورنر ہاوس سے روانگی۔
اسی بے بسی کے عالم میں ایک دفعہ گورنر صاحب قومی میڈیا پر بیان داغ بیٹھے کہ وہ پاکستان چھولے بیچنے نہیں آئے۔ یہ شاید ملک کا المیہ ہے کہ گورنر صاحب جیسے شریف النفس انسان کے وژن سے قوم فائدہ نہیں اٹھا پا رہی۔
دوسری کامیابی جسے ہم رعائیت دے کر سمندر پار پاکستانیوں کی آدھی کامیابی کہہ سکتے ہیں جو عظیم روحانی پیشوا کے طور پر جلوہ گر ہوئی انہیں عوام پیار سے عمران خان بھی کہتے ہیں۔ جامعہ نمل، شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر اور خان صاحب کی عملی سیاست کے لیے سب سے زیادہ چندہ سمندر پار پاکستانیوں نے اکھٹا کیا اور وہ خان صاحب کے اقتدار کے لیے دعاگو اور مخلص بھی رہے۔ ملکی سیاست اور معیشت تو گئی بھاڑ میں اب خان صاحب اکثر قومی میڈیا پر سمندر پار پاکستانیوں کو محض خوش کرنے کے لیے بول بچن لگاتے ہیں کہ ووٹ کا حق، الیکٹرونک ووٹنگ مشین وغیرہ البتہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کی تعریف ضرور کرتے ہیں کہ اس مہینے ریکارڈ پیسے بھیجے ہیں اور فخر کا عالم یہ ہوتا ہے جیسے 90 لاکھ پاکستانی خان صاحب کی ذاتی یا ان کی پارٹی کی کاوشوں سے سمندر پار رہائش پذیر ہوئے۔
ووٹ کے حق کا مسئلہ دوہری شہریت یا ان پاکستانیوں کا مسئلہ ہے جو پاکستان کی شہریت سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ ایک اہم مگر نہایت بحث طلب مسئلہ ہے۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔
سمندر پار پاکستانیوں کی سب سے بڑی آبادی خطہ عرب میں مقیم ہے۔ یہ پاکستان کے خالص شہری ہیں۔ ان کا نام ووٹر لسٹوں میں اپنے اپنے حلقہ یا نادرا کے ریکارڈ کے مطابق موجود ہیں اور انہیں ووٹ کا حق پہلے سے ہی موجود ہے۔ ان کا بڑا مسئلہ ان تک بیلٹ پیپر کے پہنچانے اور وصول کرنے کا ہے۔ اب ان کی خوشنودی کے لیے خان صاحب الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کی پھکی بیچ رہے ہیں۔ سمندر پار ووٹنگ کے لیے مشینیں استعمال کی جائیں یا انٹر نیٹ سے مدد لی جائے پاکستان کا کل حلقہ وار ووٹنگ سسٹم نا تو اتنے بڑے پیمانے پر پولنگ کی اہلیت رکھتا ہے اور نہ ہی اعتبار۔ پاکستانی ایمبیسیاں جو اپنے شہریوں کے لیے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بمشکل مہیا کر پاتی ہیں کیا وہ سعودیہ اور عرب امارات جیسے بڑے ملکوں میں پولنگ کا بندوبست کر پائیں گی۔ یہ سسٹم آج تک کسی ایک بلدیاتی حلقے کا بھی غیر متنازعہ نتیجہ جاری نہیں کر سکا، الیکشن کے اگلے ہی روز بیسیوں پٹیشنیں الیکشن کمیشن میں پڑی ہوتی ہیں۔
پاکستانی حکومتوں کی سمندر پار پاکستانیوں کے بارے سنجیدگی اور خلوص کا یہ عالم ہے کہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے وزارت سمندر پار پاکستانی اور لیبر کی وزارت (پروٹیکٹر کے معاملات) کام کرتی ہیں۔ ہر حکومت اپنے جس حواری کو سب سے زیادہ عیش کروانا چاہتی ہے اسے ان وزارتوں کا وزیر لگا دیا جاتا ہے۔
عرب ممالک کے سرکاری ورک ویزے تقریباً فری جاری ہوتے ہیں اپنے ایجنٹوں کی مدد سے ایک ایک ویزا لاکھوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اس وزارت کے زیر اہتمام ایک فاونڈیشن (OPF) بھی کام کرتی ہے جس کے بڑے کاموں میں چند رہائشی منصوبے جن میں چند ہزار پلاٹوں کی کل گنجائش ہے اور اسلام آباد میں ایک گرلز اور ایک بوائز کالج اورمختلف شہروں میں 22 ہائی سکول قائم کیے ہیں ان کل 24 تعلیمی اداروں میں سمندر پار پاکستانیوں کے زیر تعلیم بچوں کی کل تعداد محض 2550 ہے۔ 90 لاکھ سمندر پار پاکستانیوں کے 24 اداروں میں صرف 2550 بچے ہے نہ عجیب و غریب تناسب۔ اگر ہمارے کسی قاری یا دوست کو بیان کردہ اعداد و شمار پر شک ہو تو انہیں فوری طور پر سرکاری ویب سائٹ کا وزٹ کرنا چاہیے۔
ایک محب وطن پاکستانی شہری ہونے کے ناطے راقم کو تمام سمندر پار پاکستانی بھائی بہنوں اور ان کے اہل خانہ سے ہونے والی ناانصافیوں پر دکھ ہے لیکن ایک گلہ بھی ہے کہ پاکستانی روپیہ جو خاصا بیقدر ہوچکا پھر بھی مجھ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کا پالن ہار ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ڈالروں، پونڈ اور ریالوں میں دی جانے والی خیرات، چندہ یا بھیک پر کہیں اودھم مچانے والے سماج دشمن عناصر تو نہیں پل رہے۔