زارا چانڈیو
ایک سال قبل انڈیا سے تعلق رکھنے والی عائشہ نامی لڑکی نے خود کشی سے پہلے جو ویڈیو بنائی تھی اس میں شکایت تھی انسانوں کے رویوں کی، جن رویوں نے اسے خود کشی کرنے پر مجبور کیا تھا۔ وہ ویڈیو میرے ذہن میں ایک خیال لائی کہ وہ کون سے لوگ ہوں گے جو اب بھی پوچھتے ہیں تمہیں (خواتین) کو کیسی آزادی چاہیے؟
جب پاکستان کی چند فیمنسٹ خیال رکھنے والی خواتین سے آزادی کے متعلق سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ سمجھتی ہیں خواتین کی زندگیوں میں جتنی بھی رکاوٹیں اور تکلیفیں ہیں ان کا باعث مرد ہیں اور پدر شاہی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی خواتین آزاد ہو جائیں گیں، کیونکہ کہ اس وقت زندگی کے ساتھ جڑے سارے فیصلوں کا حق مرد کے پاس ہے، وہ خواتین پر تشدد کرتے ہیں، خود کو خواتین سے بالا تر سمجھتے ہیں اور جب خواتین مردوں کے برابر ہوں گیں تو تب ہی ان کی آزادی ممکن ہو گی۔ تب میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے کہ مرد کے ساتھ وہ کیسی برابری کی بات کرتی ہیں، کیا ایسی برابری کہ خواتین بھی اپنے گھر کے مردوں کے ساتھ ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے آزاد ہوں؟
جس لڑکی نے خود کشی کی جب اس کے خاندان سے بات چیت کی گئی تھی تو پتا چلا کہ پدر شاہی نظام کا خاتمہ خواتین کے مسئلوں کا حل نہیں۔ عائشہ کے والد نے بیان دیا تھا کہ ایک بیٹی کی شادی کروائی تو بڑے بیٹے کو اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی کیونکہ جتنی بھی جمع پونجی تھی سارا کچھ جہیز میں دے دیا تھا اور گھر کے معاشی حالات ٹھیک نہ تھے اور جب عائشہ کی شادی کروائی تو قرضہ اتنا بڑھ گیا کہ چھوٹے بیٹے کو بھی اپنی پڑھائی چھوڑ کر مزدوری کرنی پڑی۔ یقینا عائشہ اور عائشہ جیسی لاکھوں لڑکیوں کی خود کشی کا باعث سماج میں پلنے والی پدر شاہی نظام کی رسمیں ہیں مگر یہ فقط اس ایک شخص کی خود کشی نہیں ہوتی، یہ پورے گھر کی خود کشی ہوتی ہے جس کا شکار مرد بھی ہوتے ہیں۔ ظاہری طور تو اس کا سبب پدر شاہی نظام ہے مگر درحقیقت یہ طبقاتی مسئلہ ہوتا ہے ورنہ جہیز کی خاطر کبھی کسی وڈیرے، سرمایہ دار اور ٹھیکیداروں کی بیٹیوں نے تو خود کشی نہیں کی۔ اس پدر شاہی نظام میں یقینا خواتین کو زیادہ بھگتنا پڑ رہا ہے، جس میں ان کی زندگی پر ان کے فیصلوں کو بھی رد کیا جاتا ہے۔ اس کا ذہنی اور جسمانی طور پر استحصال کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے غیرت کے نام پر قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس پدر شاہی نظام میں مرد بھی جکڑ بندیوں میں قید ہے۔
دنیا میں اکثریت محنت کش طبقے کی ہے، جن کے حالات انسانی سماج میں رہتے ہوئے جانوروں کے جیسے ہیں، جن کا سارا دن جسمانی محنت میں گزرتا ہے اور رات کو جب وہ بستروں پر کھلے منہ ٹوٹ پڑتے ہیں تو ان میں اتنا ہوش، اتنی ہمت باقی نہیں رہتی کہ رات کو اگر کوئی انہیں قتل بھی کر جائے تو اپنی بقا کی خاطر وہ اٹھ پائیں اور ایسے طبقے میں مرد و خواتین میں صرف ایک ہی فرق ہوتا ہے اور وہ صرف بچے کو جنم دینے کا ہے، ورنہ دونوں ہی ہر طرح سے ہر لحاظ سے ہر کام میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ہاں وہ انسانی سماج میں رہتے ہوئے انسانی اخلاق و قدر سے واقف ہو جاتے ہیں مگر ایسا طبقہ اپنی ساری زندگی جانوروں کی طرح پیٹ پالنے میں گزار دیتا ہے۔ پدر شاہی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کیا غربت کا خاتمہ بھی ہو گا؟ اگر نہیں تو اتنا ضرور ہو گا کہ پدر شاہی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جن کو گھر کے مرد حضرات غیرت کے نام پر باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے تب وہ بھی معاشی مسئلوں سے تنگ آ کر ملوں میں اور اور فیکٹریوں میں کام کرنا شروع کریں گی۔ جن کا کام سرمایہ داری نظام کو مضبوط کرنے کے لیے ایک بڑی جدوجہد ہو گی ورنہ سرمایہ داروں کی خواتین تو آج بھی آزاد ہیں اور ان کے منشی ٹھیکیداروں کی خواتین کو پدر شاہی نظام سے نہ تکلیف تھی نہ ہے بلکہ یہ نظام تو ان کے عیش و عیاشی کا باعث ہے۔ وہ بھلا اسے ختم کرنے کا کیسے سوچ سکتی ہیں۔ ایک بار پھر یہی سوال جنم لیتا ہے کہ کیا پدر شاہی نظام کے خاتمے کے ساتھ ایسے طبقے کے مردوں کی زندگی کے مسئلے حل ہو جائیں گے؟ کیونکہ وہ مرد بھی خواتین کے وجود کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ شوہر کی بیروزگاری کا اثر اس کی بیوی اور بچوں پر پڑتا ہے۔ ہم جانتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ ہاں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پدرشاہی نظام میں خواتین کو فطرت سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی یہاں تک کہ خواتین کو انسان ہونے کا احساس کم کروایا گیا اور انہیں جنس کی بنیاد پر دیکھا اور رویہ اختیار کیا گیا۔ مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خواتین کو جنس کے طور پر صرف ایک ہی طبقہ جانتا ہے جس کے پاس رہنے کے لیے ایک چھت، کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی اور تن کو ڈھانپنے کے لیے کچھ کپڑے میسر ہوتے ہیں۔ ورنہ بڑے طبقے میں جنس کی بنیاد پر اتنا فرق نہیں ہوتا اور ایک ایسا طبقہ جو جیتا ہی پیٹ پالنے کے لیے ہے اس میں بھی مرد و خواتین میں جنس کا اتنا فرق عیاں نہیں ہے اور غیرت کا پیمانہ بھی ان دونوں طبقوں میں اتنا شدید نہیں ہوتا جتنا کہ درمیانے اور مڈل لوئر کلاس میں ہوتا ہے۔
ان حالات میں یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ خواتین پر جنس کی بنیاد پر زیادہ استحصال ہوتا ہے یا طبقہ کی بنیاد پر؟ تو ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ جنس کا فرق بھی چھوٹے طبقے کے پاس ہوتا ہے ورنہ بڑے طبقے کے سامنے یہ ایک مذاق ہو گا۔ گھروں پر تشدد کی بات ہو یا کام کرنے کی جگہوں میں حراساں کرنے کی بات ہو یہ ساری تکلیفیں فقط ایک ہی طبقے کی خواتین کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
پچھلے دو سال سے نگاڑا اور طبلہ بجانے والی خواتین نے یہ بیان دینا شروع کیا ہے کہ آٹھ مارچ فقط ایک طبقے کی خواتین کا دن نہیں بلکہ یہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کا دن ہے جو کہ سراسر جھوٹ، دھوکا اور اس دن کی اہمیت کو ختم اور اپنی ذات کو زندہ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب ڈنمارک میں خواتین بھی جبر و استحصال کے نیچے دبی ہوئی خواتین کے حقوق کی آزادی کے لیے روڈ پر نکل کر آواز بلند کرتی ہیں تو ان کی یہ یکجہتی قابل تعریف ہے مگر ایک ایسے سماج میں جہاں خواتین کا کبھی جنس کے بنیاد پر قتل ہونا، کبھی طبقے کی بنیاد پر قتل ہونا اور جہاں یہ قتل عام روز کا معمول ہو اس سماج میں خواتین کو سنجیدہ سیاست کی سخت ضرورت ہوتی ہے نہ کے یکجہتی کی۔ اور آزادی چاہتا کون ہے وہ جو قید میں ہو وہ، جس کا جسم بھاری زنجیروں کے تلے دبا ہوا ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے کہا کہ دنیا میں خواتین کی رہنمائی تم محنت کش خواتین ہی کو کرنی پڑے گی محنت کش خواتین ہی انقلاب کی اصل آواز ہیں اور ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں مارچ کو ایسی خواتین لیڈ کرتی ہیں جو پورا سال اپنے عالیشان محل نما گھروں میں چھوٹے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین سے اپنے پاؤں دبواتی ہیں۔ اپنا بچا ہوا جھوٹا کھانا شاپر میں ڈال کے اس نچلے طبقے کی طرف پھینک دیتی ہیں اور آٹھ مارچ آتے ہی وہ رقص کرتے آزادی کا دن مناتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے جہاں محنت کش خواتین کے گھروں میں فاقہ کشی اپنے ڈیرے جمائی ہو، جہاں مرضی کی شادی پر ہمارے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو کاری کا لقب دے کے اس کی گردن کو کلہاڑیوں کے وار سے الگ کر کے پھینک دیا جاتا ہو، جہاں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو جنسی تفریق کی وجہ سے تعلیم نہیں دی جاتی، جہاں برادریوں کے تکرار نوجوان لڑکیوں کی عصمتوں کو لوٹ کر انتقام لیا جائے۔ کیا ایسے حالات میں جہاں پورے ملک میں ایک طرف ماتم کا سماں ہو تو دوسری جانب ڈھول کے ساتھ رقص اور جشن کا سماں۔ وہ خواتین جو اس ایک ہی دن میں نظر آتی ہیں وہ پھر کسی ایسے دن کا انتظار کرتی ہیں کہ پھر کہاں جا کہ جشن منایا جائے۔ یہ وقت بہت اہمیت کا حامل ہے، یہ وقت سنجیدہ سیاست اور سوشلسٹ نظام کے لیے جدوجہد کرنے کا ہے۔ اس وقت محنت کش خواتین کو اپنے لیے نکلنا ہو گا۔ ہم جانتے ہیں کہ سوشلسٹ نظام کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہماری آزادی کا اس لیے ہمیں جدوجہد کو تیز کرنا ہو گا ہم بھی جشن منائیں گے مگر تب جب ہم آزاد ہوں گی اور جب تک ہماری لڑکیاں یونہی ماری جاتی رہیں گی ہمارا جشن شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہو گا ہم بھی یکجہتی کے طور پر نکلیں گی باہر مگر تب جب ہم آزاد ہوں گی۔
یہ دن فقط محنت کش خواتین کا ہے جن کا نعرہ پدر شاہی نظام مردہ باد سے لے کر سوشلسٹ نظام زندہ باد پر ختم ہوتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں ہمارے مسئلوں کی نجات صرف سوشلسٹ نظام میں ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ریاست میں سے پدر شاہی نظام کا خاتمہ سوشلسٹ نظام سے پہلے ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ خواتین جو مارچ میں لائے جانے والی گاؤں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھیڑ بکریاں سمجھتی ہیں اور بھیڑ بکریوں کی طرح انہیں لاٹھی سے نہیں جھوٹے نعروں سے اپنے پیچھے چلاتی رہتی ہیں۔ اس ہجوم میں وہ ان کے ساتھ کھڑی تو ہوتی ہیں مگر ان کا ایک الگ ٹولہ ہوتا ہے۔ ایک طرف محنت کش خواتین کو ایسی این جی او قسم کی خواتین کا سامنا ہے تو دوسری طرف مذہبی انتہا پسندوں کا جنہوں نے پچھلے دو تین سال سے اس دن کی سخت مخالفت کی اور انتہا تو اتنی بھی کر دی کہ کئی مختلف شہروں میں مذہبی انتہا پسندوں نے خواتین کی مارچ اور ریلیوں میں پتھراؤ بھی کیا تھا اور سامنے آ کر سخت نعرے بازی بھی کی گئی تھی۔ مگر پچھلے سال میدان عمل پر سب سے پہلے بیس فروری سے مولویوں نے اپنی خواتین کو افغانی برقوں سمیت مختلف شہروں کے پریس کلبوں میں اپنا بیان دلوانے بھیج دیا اور کئی شہروں میں انہوں نے شرم کرو حیا کرو کے نام سے ریلیاں نکلوائی تھیں۔ جنہیں کسی سے کوئی خطرہ تو نہ تھا بلکہ ان جیسے لوگوں سے دوسروں کو خطرہ ضرور تھا مگر پھر بھی انہیں مکمل طور پر پروٹوکول دیا گیا۔ اس سال 25 فروری سے مولویوں نے بینر اٹھائے اور ان پر لکھا تھا خواتین کو اشتہار کے لیے استعمال مت کرو، خواتین کی عزت کرو۔ اشتہاری نہ بناؤ تک تو بات سمجھ آتی ہے مگر خواتین کی عزت پردے میں ہے کہہ کر اسے سماج کے ہر ادارے سے نکال کر صرف خاندانی ادارے کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی شناخت سے بھی واقف نہ ہو سکے۔ دونوں ہی جملے خواتین کی صلاحیتوں کا غلط فائدہ اٹھانے والے ہیں، دونوں میں محنت کش خواتین کا استحصال ہے۔