پاکستان

’’سالگرہ پر تحفے کے لئے عمران خان کی پولیس تیرا شکریہ‘‘

زمان خان

2 فروری 2020ء، یہ تاریخ میرے لئے بہت اہم ہے کیونکہ میں اس تاریخ کو 74 سال کا ہو گیا۔ اس کے ساتھ اس سال یہ دن اس لئے بھی میری زندگی کا اہم دن بن گیا کہ اس دن فیصل آباد پولیس نے مجھے فیصل آباد پریس کلب کے باہر سے گرفتار کرکے مجھے احساس دلوایا کہ تم آج اس عمر میں بھی اس نظام کیلئے خطرہ ہو۔ میرا یہ خیال اور یقین ہے کہ اب نوجوانوں کو قوم کی رہنمائی اور قیادت فراہم کرنی ہے۔

میں عمران خان کی حکومت کا شکر گذار ہوں کہ اس کی پنجاب پولیس نے مجھے گرفتار کر کے عزت بخشی اور جنم دن کا بہترین تحفہ دیا۔ میں پولیس کے انسانیت سوز رویے کا گلا اس لئے نہیں کرتا کیونکہ میں نے کبھی بھی ایسے دوستوں سے اتفاق نہیں کیا جو سمجھتے ہیں کہ ہماری پولیس عوام اور انسان دوست یا مہذب ہو سکتی ہے۔ وہ ہر پاکستانی کو مجرم اور اگر وہ سیاسی اور انسانی حقوق کا شعور رکھتا ہو تو اسے غدار اور وطن دشمن سمجھتی ہے۔

اس کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ جس دور میں ہم جوان ہوئے وہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کا دور تھا۔ یہ دور بہت ہی جبر و ستم کا دور تھا۔ اس دور میں عوام کو کسی قسم کے بنیادی حقوق حاصل نہیں تھے۔ اِسی دور میں بائیں بازو کے سیاسی رہنما حسن ناصرکو لاہور کے شاہی قلعے میں تشدد کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔ پنجاب اسمبلی کے رکن باقی بلوچ کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ایک صحافی مارا گیا۔ لاہور میں جماعت اسلامی کے جلسے پر فائرنگ کی گئی جس میں کچھ لوگ مارے گئے۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔

جنرل ایوب نے آتے ہی ترقی پسند اور عوام دوست اخبارات کو قومی تحویل میں لے لیا، پریس کو کنڑول کرنے کے لئے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس جاری کیاگیا۔ میرا مقصد یہاں پر مارشل لا کی تاریخ بیان کرنا نہیں۔ یہ صرف اس لئے دہرا رہا ہوں تاکہ آج کے نوجوانوں کو کچھ پتہ چلے کہ پاکستان میں آج جو ظلم و ستم ہو رہا ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے اور ہمارے بزرگوں نے اس سے بھی بدتر حالات میں عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے۔

جنرل ایوب خان کے جبر کی بابت ایک واقعہ بیان کرکے ختم کرتا ہوں: میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کا طالب علم تھا۔ عطا الحق قاسمی، میرا دوست، ایم اے اردو کا طالب علم تھا اور نوائے وقت میں کام کرتا تھا۔ اُس نے میرے نام سے ایک خبر لگا دی۔ وہ خبر ہمارے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ محترم استاد پروفیسر انوار سید کے پاس آگئی کہ اس لڑکے کو نکال دیا جائے۔ پروفیسر انوار نے جواب دیا کہ اس لڑکے نے ڈیپارٹمنٹ کے ڈسپلن کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔

دو فروری کو عوامی ورکرز پارٹی فیصل آباد نے پاکستان بھر میں گرفتار سیاسی اور سماجی کارکنوں خاص کر پی ٹی ایم کے منظور پشتین کی گرفتاری پر فیصل آباد پریس کلب کے باہر پر امن احتجاج رکھا۔ میں جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ہر طرف پولیس ہی پولیس ہے اور میری بیوی امینہ زمان کو پولیس نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ اتنی دیر میں پولیس کے سپاہی میری طرف آئے اور مجھے کہا کہ ہمارے ایس ایچ او کا حکم ہے کہ تم اس پولیس کی گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ میں نے پوچھا کہ میرا جرم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں نہیں معلوم افسر کا حکم ہے، اگر تم خود نہیں بیٹھ سکتے تو ہم اٹھا کر بٹھا دیں گے۔

میں نے جواب دیا کہ ابھی مجھ میں ہمت ہے، میں خود بیٹھ جاتا ہوں۔ جب پولیس کی گاڑی چلی تو میں نے دیکھا کہ پولیس میری بیوی کو گرفتار کر کے لے جارہی ہے۔ مجھے تھانہ ریل بازار لے جایا گیا اور ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کردیا گیا جس میں پہلے ہی عوامی ورکرز پارٹی کے کارکن بند تھے۔ باہر سے اس کمرے کو تالہ لگا دیا گیا کہ دہشت گرد اور غدار بھاگ نہ جائیں۔ تھانے میں داخل ہوتے ہی میرا موبائل فون لے لیا گیا تھا۔ چند گھنٹوں بعد ہمیں کہا گیا کہ آپ جا سکتے ہیں مگر آپ کے فون فارنزک آڈٹ کے بعد واپس کئے جائیں گے۔

اب تھوڑی سی بات اسلام آباد میں گرفتار دوستوں کے بارے میں بھی ہوجائے جن پر دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں اور سیشن جج نے ضمانت بعد از گرفتاری مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ ان ملزمان کے خلاف غداری کی دفعہ بھی لگنی چاہئے۔ شکر ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت لے لی ہے اور پولیس سے پوچھا ہے کہ ان لوگوں نے پر امن مظاہرہ کر کے کون سا جرم کیا ہے کہ ان کے خلاف غداری اور دہشت گردی کا پرچہ دیا جائے۔

ہماری گرفتاری کی خبر نہ تو پرنٹ اور نہ ہی مقامی الیکڑانک میڈیا نے دی۔ غالباًیہ ’ہائی بریڈ ففتھ جنریشن وار‘ کا حصہ ہے مگر کیا کیا جائے جو ایک مقامی خبر تھی وہ ساری دنیا کے سوشل میڈیا کی خبر بن گئی۔ میں شکر گذار ہوں انتظامیہ کا اس جنم دن کے بہترین تحفہ کے لئے اور یہ احساس دلوانے کا کہ: ابھی تو تم جوان ہو۔ مزید مجھے اور میری شریک حیات امینہ زمان کو ایک ہی وقت پس دیوار زنداں رکھ کر تاریخ رقم کرنے کا۔

Zaman Khan
+ posts

زمان خان ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تحریک میں سرگرم ہیں۔