پاکستان

گلگت بلتستان میں خود مختار آئین ساز اسمبلی کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے

عمران علی حسینی

جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے تو ہم ایک اسٹیٹ لیس اور آئین سے محروم خطے میں تھے لیکن ہمارے معاشرے میں بھی شعور کی حد درجہ تک کمی تھی۔ ہم نے تصور کر رکھا تھا کہ ہم پاکستان کا پانچواں صوبہ بننا چاہتے ہیں مگر پاکستان کے حکمران جان بوجھ کر نہیں بنا رہے ہیں اور صوبے کو اپنا آئینی حق تصور کر رکھا تھا۔ اس کے بعد جب ہم نے اس بارے میں تھوڑی بہت تحقیق سے کام لیا تو پتہ چلا کہ جب تک ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک صوبہ بنانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ اب دنیا کے تمام جمہوری ممالک ایک اہم سیاسی معاہدے کے تحت جڑتے ہیں جس کو علم شہریت یا پولٹیکل سائنس کی زبان میں دستور یا آئین کہا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی آزاد جمہوری ملک بغیر دستور یا آئین کے جمہوری تصور کرنا بے معنی سا ہوتا ہے کیونکہ یہی دستور ہی ہے جو ریاست اور شہری کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے۔ یہی دستور ہی ہے جو شہری اور ریاست کے آپس میں رشتے کو مضبوط کرتا ہے، یہی دستور ہی ہے جسے سامنے رکھ کر قانون ساز ادارے قانون سازی کرتے ہیں، یہی دستور ہی ہے جو شہریوں کو حقوق کی ضمانت دیتا ہے، اس کے برعکس اگر کوئی خطہ آرڈر اور نوٹیفکیشن کے ذریعے چلایا جا رہا ہے تو خطے کا بدترین غلامی کا شکار ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا کیونکہ جس خطے کے قانون ساز ادارے ہی احکامات کے ذریعے چلائے جائیں تو وہ خطہ آزاد نہ ہونے کا یہی سب سے بڑا ثبوت ہے۔

دوسری اہم بات اس اسمبلی کی اہمیت یہ ہے کہ ایک غیر منتخب شدہ غیر مقامی وزیر امور کشمیر کی نگرانی میں کام کرتا ہے جو نہ اس علاقے سے ہوتا ہے۔ اس وزیر کے انتخاب میں اس علاقے کے نمائندوں کی نہ رضامندی شامل ہوتی ہے بلکہ یہ اسلام آباد سرکار جس کو چاہے مسلط کر دیتا ہے جس کو نہ کرنے کا بھی اختیار مقامی اسمبلی کے منتخب نمائندوں کے پاس نہیں۔ حالانکہ ریاست اپنی حدود کے باہر تعلقات رکھنے کے لیے وزیر تعینات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ریاستوں کے مابین تعلقات قائم رکھنے کے لیے وزیر کے بجائے سفیر ہوتے ہیں جو تعلقات کو استوار رکھتے ہیں تو ہم مطالبہ کرتے ہیں وزیر امور کشمیر کی جگہ پر سفیر کشمیر کا نام استعمال کیا جائے۔

گلگت بلتستان گزشتہ چوہتر سالوں سے بے آئین خطہ ہے۔ خطہ آئین کے نام سے ہی جانا جاتا ہے، یہ بات اٹل ہے اور پاکستان کی عدالت عالیہ کا موقف ہے کہ دستور پاکستان کی حدود گلگت بلتستان تک نہیں ہیں۔ یہ بھی تسلیم شدہ موقف ہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے جب تک ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک گلگت بلتستان کے مستقبل کے لیے کوئی حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں تو اس صورت میں واحد حل گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر طرزِ اسمبلی دیکر عبوری آئین سازی کا اختیار گلگت بلتستان کے اسمبلی کو دینا اب ناگزیر ہو چکا ہے چونکہ گلگت بلتستان کی نئی نسل میں اس وقت کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ اپنی اسمبلی کے دائرہ اختیار دیکھ کر کوئی بھی مقامی مطمئن نہیں ہے نہ اسمبلی کو نہ اس اسمبلی کے نمائندوں کو نہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے چونکہ ان کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا کہ اپنے علاقے کی نمائندگی کریں۔ عالم یہ ہے کہ کوئی غیر مقامی سپاہی تک کی نظر میں اس اسمبلی کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے حالیہ ایف ڈبلیو او کے غیر مقامی ایک سپاہی کا عوامی منتخب نمائندے کے سامنے جس انداز سے پیش آیا تھا یہ صرف راجہ صاحب اور حاجی گلبر صاحب کی توہین نہیں بلکہ اس اسمبلی کی توہین ہے جسکا وہ ممبر ہے، اس عوامی ووٹ کی توہین ہے اس صورت میں عوام میں بھی کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ بے چینی، بے قراری پائی جاتی ہے ایسا نہ ہو مستقبل میں بغاوت کیطرف ہی قدم رکھنے پر مجبور ہو جائے۔ تو واحد حل یہی ہے کہ اب بار بار ناممکن صوبہ کے نام سے گلگت بلتستان کے عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے ایک خود مختار آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے جس سے مقامی لوگ بھی مطمئن ہونگے۔ چوہتر سالہ محرمیوں کا ازالہ بھی ہو سکے گا اور انڈئن زیر انتظام کشمیر کو اقوام متحدہ کے قراردادوں کے خلاف 5 اگست 2019ء کو اٹھائے گئے اقدام کی بھی نفی ہو اور عالمی سطح پر پاکستان کے مسئلہ کشمیر کے متعلق موقف کو بھی تقویت حاصل ہو۔

Roznama Jeddojehad
+ posts