حبیب جالب
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شہہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہو گی
پڑھ کے نا خوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا
دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سر و قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہہ کے مصاحب جالب
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا