فاروق طارق
صوبہ پنجاب کے پرائمری سکولوں میں تعلیم کی صورتِ حال دگرگوں ہے۔ سرکاری سکولوں میں معیارِ تعلیم پر توجہ دینا بالکل بند کر دیا گیا ہے اور نوجوانوں کی اکثریت کو میعاری تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع میسر نہیں ہیں۔
ادہر پرائیویٹ سکولوں میں طلبہ کا استحصال اپنے عروج پر ہے۔ سب سے زیادہ کمائی کے ادارے یہ بڑے پرائیویٹ سکول بن گئے ہیں۔ اخبارات ان کے اشتہاروں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ نہ صرف طلبہ کا بلکہ اساتذہ کا بھی معاشی استحصال کرتے ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کا کوئی سروس سٹرکچر نہیں ہے۔
ایسے سکولوں میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کو نوکری کے لئے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ان کو کم تنخواہ دینی پڑتی ہے اور ان کو آسانی سے دبایا جا سکتا ہے۔ ان کو موسمِ گرما کی چھٹیوں کی اکثر اوقات تنخواہ ادا نہیں کی جاتی جبکہ طلبہ سے فیس وصول کر لی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 68,000 پرائیویٹ سکولز ہیں جن میں کل طلبہ کاتقریبا 30 فیصد حصہ تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
صوبہ پنجاب میں اس وقت سکول جانے کی عمر (5-16 سال) کے ایک کروڑ 50 لاکھ بچے تعلیم تک رسائی سے محروم ہیں۔ تقریباًاتنے ہی بچے (11.51 ملین) سکولوں میں جاتے ہیں۔ سکول جانے والے بچوں کی بھی آدھی سے زیادہ تعدادہائی سکول پہنچنے سے قبل ہی سکولوں کو چھوڑ جاتی ہے۔ مثلاً2007ء میں 21 لاکھ 79 ہزار بچوں نے پرائمری کے امتحانات دیے مگر 2016ء میں ان میں سے صرف 6 لاکھ اور 6 ہزار بچوں نے میٹرک کا متحان دیا۔
سکول چھوڑنے میں دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اور بات بھی اہم ہے: پرائمری سکولوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ ہائی سکولوں کی تعداد اس کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس وقت پنجاب میں پرائمری سکولوں کی کل تعداد 36091 ہے جبکہ ہائی سکولوں کی تعداد اس کے نصف سے بھی کم یعنی 15661 ہے۔
وفاقی سطح پر تعلیم پر اخراجات کل داخلی پیداوار کے 2 فیصد سے بھی کم ہیں اگرچہ صوبائی سطح پر اس وقت کل بجٹ کا 18.8 فیصد خرچ کیا جا رہا ہے، یہ اخراجات تین سال قبل 26 فیصد تک تھے۔
’آئی سیپ‘ نامی ایک تنظیم نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر تعلیم کی شرح کو 100 فیصد تک لانا ہے تو اگلے دس سال میں 6595 ارب روپوں کی مزیدضرورت ہو گی۔ دو لاکھ تینتیس ہزار نئے تعلیمی کمرے تعمیر کرنا ہوں گے، چار لاکھ تین ہزار اور پینتیس نئے اساتذہ کی ضرورت ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر سال چھ سے سات فیصد زیادہ رقم تعلیم کے لئے مختص کرنی ہو گی۔ یہ کوئی زیادہ رقم نہیں مگر تعلیم حکومت کی ترجیح نہیں اور نہ حکومت اس بارے اپنی موجودہ روشوں کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔