تاریخ

مقبول بٹ چے گویرا کے بہت بڑے مداح تھے

طارق علی

طارق علی کی کتاب ”بنیاد پرستیوں کا تصادم“ کے باب بعنوان ”کشمیر کہانی“ سے ایک اقتباس۔

بھٹو نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کا اقتدار سنبھالا مگر پرانا کھیل ختم ہو چکا تھا: 1972ء میں بھارتی کوہسار شملہ کے مقام پر بھٹو نے کشمیر پر سٹیٹس کو جاری رکھنے کی حامی بھری اور بدلے میں وہ نوے ہزار فوجی رہا کروائے جو مشرقی پاکستان میں شکستِ ڈھاکہ کے موقع پر گرفتار ہوئے تھے۔ مذہب پرست جماعت اسلامی کے سوا کشمیر کا ہر سیاسی گروہ بنگال میں مسلمان بھائیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر کانپ کر رہ گیا۔ ان دنوں اگر ریفرنڈم ہو جاتا تو اکثریت بھارتی فیڈریشن کے حق میں فیصلہ کرتی مگر بھارت نے ریفرنڈم کا خطرہ مول نہ لیا۔ پاکستان کی مقبولیت اور بھی کم ہو گئی جب امریکہ کے لگائے ہوئے تیسرے فوجی آمر نے 1979ء میں ایک جعلی مقدمے کے بعد بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا۔ سری نگر میں ایک بڑی ریلی مرحوم رہنما کی نماز جنازہ کی شکل اختیار کر گئی۔

شیخ عبداﷲ (جنہیں 1970ء کی دہائی کے وسط میں بیماری کی بنا پر رہا کر دیا گیا تھا) دہلی کے ساتھ صلح کر چکے تھے اور 1977ء میں انہیں وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیا، بشکریہ مسزگاندھی کہ مسز گاندھی نے کشمیر اسمبلی کے کانگریسی بزرجمہروں سے، جو خود مشکوک طریقے سے منتخب ہوئے تھے، کہا کہ وہ وفاداری بدل کر شیخ عبداﷲ کو ووٹ دیں۔ تبدیلی خاموشی سے پایہ تکمیل کو پہنچی: کشمیری شیخ عبداﷲ کی واپسی پر خوش تھے۔ مگر انہیں احساس تھا کہ ڈور مسز گاندھی کے ہاتھ میں ہے۔

شیخ عبداﷲ کی حالت اب کسی سدھائے ہوئے پرندے کی سی تھی اور وہ تھکے ماندے دکھائی دیتے تھے: ایام اسیری نے ان کی صحت پر بھی اثر ڈالا تھا اور سیاست پر بھی۔ اب وہ برصغیر کے دیگرراجاﺅں کی نقل میں سیاسی خاندان شاہی کی بنیاد رکھنے کی کوشش میں تھے۔ کہاجاتا ہے انہیں اکبر جہاں نے مجبور کیا اور وہ اس بڑھاپے اور ناتوانی میں مزاحمت کے قابل نہیں رہے تھے۔ سر ی نگر میں ایک بہت بڑے جلسے میں انہوں نے اپنے بڑے بیٹے فاروق عبداﷲ___ ملنسار ڈاکٹر، شراب اور عورت کا رسیا مگر قابلیت سے کافی حد تک محروم___ کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔

1982ء میں بسترمرگ پر پڑے ہوئے شیخ عبداﷲ نے ایک پرانے دوست کو ایک خواب بارے بتایا جو وہ گزشتہ تیس سال سے دیکھ رہے تھے۔ ’ میں ہنوز جوان ہوں۔ دولہا بنا ہوا ہوں۔ گھوڑے پر بیٹھا ہوں۔ میری بارات پوری دھوم دھام کے ساتھ گھر سے روانہ ہوتی ہے۔ ہم دلہن کے گھر کی طرف چل پڑتے ہیں لیکن جب میں وہاں پہنچتا ہوں تو دلہن وہاں موجود نہیں۔ وہ کبھی وہاں نہیں ملتی۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے‘۔ گم شدہ دلہن کے بارے میرا خیال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ نہرو تھی۔ شیخ عبداﷲ کبھی بھی نہرو کی دھوکے بازی کو فراموش نہیں کر پائے۔

1984ء میں‘ میں نے اندرا گاندھی سے بھارت کی حواس باختگی کی بابت دریافت کیا۔ انہوں نے استصواب رائے منعقد نہ کرانے کی کوئی وضاحت نہ پیش کی اور اس بات سے اتفاق کیا کہ 1979ء وہ وقت تھا جب خطرہ مول لیا جا سکتا تھا مگر ساتھ ہی مسکراتے ہوئے انہوں نے مجھے یاد دلایا، ’اس برس میں حکومت میں نہیں تھی۔ اگر میں وزیر اعظم ہوتی تو میں ہمسائے میں انہیں بھٹو کو پھانسی نہ لگانے دیتی‘۔

جب کلکتہ میں حزب اختلاف کے ایک اعلیٰ سطیٰ اجلاس میں شیخ عبداﷲ کے بیٹے فاروق سے میری ملاقات ہوئی تو وہ دہلی کی ناکامیوں پر برس رہے تھے مگر انہیں پورا یقین تھا کہ استصواب رائے کا فیصلہ پاکستان کے حق میں نہیں جائے گا۔ ’اس کی عمر کافی ہو گئی ہے‘، فاروق نے اندرا گاندھی کی بابت کہا۔ ’مجھے دیکھئے! میں کون ہوں؟ بھارتی معیار کے مطابق میری کوئی حیثیت نہیں۔ ایک صوبائی سیاستدان۔ اگر اس نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا ہوتا تو کوئی مسئلہ ہی کھڑا نہ ہوتا۔ کشمیر میں اس کے کانگرسی شکست کھانے پر سیخ پا تھے لہٰذا انہوں نے ایجی ٹیشن شروع کر دیا مگر کاہے کے لےلئے؟ اس حکومت کے لئے جس کا حق رائے دہندگان نے انہیں نہیں دیا۔ میں کئی بار مسز گاندھی سے یہ یقین دہانی کرانے کی خاطر ملا کہ ہم وفادار ہیں، وفادار رہنا چاہتے ہیں اور مرکز سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ انہیں کچھ ایسا خبط ہے کہ وہ مکمل تابعداری چاہتی ہیں۔ یہ بات تو ممکن نہیں تھی لہٰذا انہوں نے کشمیر کانگرس کو ہماری حکومت کے کام میں گڑبڑ پیدا کرنے کے لئے سبز جھنڈی دکھائی۔ مجھے قومی رہنما اندرا گاندھی نے بنایا ورنہ میں تو اپنے خوب صورت کشمیر میں کہیں زیادہ خوش وخرم تھا‘۔

میں نے یہ بات اندرا گاندھی سے کہی تو وہ حقارت سے غرائیں۔ ’ہاں ! ہاں!مجھے معلوم ہے وہ یہ سب کہتا پھرتا ہے۔ اس نے مجھ سے بھی ایسی ہی باتیں کہی تھیں مگر وہ کہتا کچھ ہے کرتا کچھ ہے۔ بہت جھوٹ بولتا ہے۔ اس لڑکے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘ دریں اثنا اندرا گاندھی کو اپنے ’ذرائع‘ سے پتہ چلا کہ پاکستان کشمیر پر فوجی یلغار کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ’کیا یہ ممکن ہے؟‘ میں نے اپنے شکوک کا اظہار کیا۔ جنرل ضیاالحق بدطینت اور بے رحم ضرور ہے مگر بے وقوف نہیں۔ اسے معلوم تھا کہ بھارت کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستانی فوج افغانستان میں سویت یونین کے خلاف لڑ رہی تھی۔ کشمیر میں ایک اور محاذ کھولنا انتہا کی بے و قوفی ہو گی۔

’مجھے آپ کی بات پر حیرت ہوئی۔‘ اندرا گاندھی نے کہا۔ ’کم سے کم آپ کو تو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ جرنیل بےوقوف نہیں ہوتے۔‘

’بےوقوفی اور خودکشی میں فرق ہوتا ہے؛میں نے جواب دیا (اب البتہ اپنے اس بیان کو بدلنے کے لئے میرے پاس وجوہات موجود ہیں)۔

وہ مسکرا دیں مگر کوئی جواب نہ دیا، اور پھر فوجی ذہن کی خامیاں واضح کرنے کے لئے انہوں نے وضاحت کی کہ بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہتھیار ڈالنے پر کس طرح ان کے جرنیل دشمن کے مکمل خاتمے کے لئے مغربی پاکستان پر چڑھائی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے جنگ بندی کا حکم دیدیا۔ وہ کہنا یہ چاہتی تھیں کہ بھارت میں فوج پوری طرح سویلین کنٹرول میں ہے جبکہ پاکستان میں فوج بذاتِ خود قانون ہے۔

میں دہلی میں ٹھہرا ہوا تھا اور اس شام مجھے ایک سرکاری افسر کا فون آیا۔ ’مجھے یقین ہے وزیراعظم سے آپ کی ملاقات دلچسپ رہی ہو گی۔ کل ہم نے ایک غیر رسمی کلب میٹنگ رکھی ہے اور بڑی خوشی ہو گی اگر آپ وہاں آ کر ہم سے بات کریں۔‘ کلب کے ارکان یا سرکاری افسر تھے یا خفیہ اداروں کے اہل کار اور سویت یا امریکی لابی سے تعلق رکھنے والے صحافی۔ وہ مجھے قائل کرنا چاہتے تھے کہ میں غلطی پر ہوں اوریہ کہ پاکستانی جرنیل حملے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ دو گھنٹے کے بحث مباحثے کے بعد میری سانس پھولنے گلی۔ ’دیکھئے! اگر تو آپ ضیایا کہوٹہ پر پیشگی حملے کا فیصلہ کئے بیٹھے ہیں تو آپ کی مرضی۔ ہو سکتا ہے آپ کو سندھ اور بلوچستان میں تھوڑی بہت حمایت بھی مل جائے مگر باقی دنیا اس بات پر یقین نہیں کرے گی کہ آپ نے پاکستانی جارحیت کے جواب میں یہ اقدام اُٹھایا۔ فی الحال اس بات کی کوئی ساکھ نہیں۔‘ نشست برخاست ہو گئی۔ لندن واپسی پر میں نے یہ واقعات بھٹو کی بیٹی بے نظیر کو سنائے تو بے نظیر نے بات ٹوکتے ہوئے پوچھا: آپ نے اس بات کی تردید کیوں کی کہ پاکستان کشمیر پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

چار ماہ بعد اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھ قتل ہو گئیں۔ ایک سال بعد دہلی میں ایک سرکاری افسر سے میری ملاقات ہوئی جس کا کہنا تھا کہ ان کے پاس قاتلوں کے پاکستان میں قائم ان سکھ تربیتی کیمپوں سے تعلق کے ثبوت موجود ہیں جو پاکستان نے امریکہ کی مدد سے بھارتی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے کھول رکھے ہیں۔ اسے پورا یقین تھا کہ امریکہ نے مسز گاندھی کو ہٹانے کا فیصلہ پاکستان پر حملے سے بچاﺅ کے لئے کیا کیونکہ اس کے نتیجے میں افغانستان اندر مغرب کا سارا آپریشن پٹڑی سے اُتر جاتا۔ بھٹو کو پورا یقین تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف بغاوت امریکہ نے کروائی۔ موت کی کوٹھڑی سے بھٹو اپنی وصیت باہر سمگل کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے جس میں انہوں نے ایٹمی منصوبہ ترک نہ کرنے کی صورت میں کسنجر کی طرف سے ’خوفناک مثال بنائے جانے‘ کی دھمکی کا ذکر کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں بہت سے لوگ آج بھی اس بات پر مصر ہیں کہ شیخ مجیب کو سعودیہ کے ذریعے سی آئی آے نے فارغ کیا۔ شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ، بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم، ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے خاندان کی واحد زندہ بچ رہنے والی فرد تھیں۔ امریکہ ملوث تھا یا نہیں تھا البتہ یہ ایک زبردست ہیٹ ٹرک تھی: خطے میں امریکہ مفادات کے مخالف تین مقبول عام سیاست دان ایک دہائی کے عرصے میں منظر عام سے ہٹا دیئے گئے۔

1971ء میں علیحدگی کے بعد پاکستان کی کشمیر اورجنوبی ایشیا میں دلچسپی کم ہوتی دکھائی دی۔ 1980ء میں بھٹو کی پھانسی کے ایک سال بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ایک نوجوان اور اولوالعزم اہل کار نے دورہ پاکستان کے دوران ضیاکو مشورہ دیا کہ وہ سعودیہ عرب اور خلیجی ریاستوں میں جمع ہونے والے پیٹرو ڈالرز کی فاضل مقدار پر توجہ کرے۔ خلیج میں سٹیٹس کو قائم رکھنے کے لئے پاکستانی فوج میں بھرپور صلاحیت موجود تھی۔ خرچہ سارا عربوں کو اُٹھانا تھا۔ فرانسس فوکویاما کا پوزیشن پیپر دی سیکورٹی آف پاکستان: اے ٹرپ رپورٹ فوجی آمریت نے پوری سنجیدگی سے لیا۔ افسر اور جوان ریاض اور ابوظہبی روانہ کر دیئے گئے تاکہ وہ اندرونی سلامتی کو یقینی بنا سکیں۔ وہاں تنخواہیں بہت زیادہ تھیں اور ہر کوئی خلیج میں تعیناتی کا خواہش مند تھا۔ پاکستان نے انتہائی احتیاط سے منتخب کی گئی طوائفیں بھی، جنہیں خواتین کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے بھرتی کیا جاتا، برآمد کیں۔ اسلامی یکجہتی کی کوئی حد نہیں!!!

اندریں حالات جب اسلام آباد کہیں اور الجھاہوا تھا، بھارتی حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ کشمیر پر کسی مناسب حل پر پہنچ جائے مگر 1980ء کی دہائی میں بھارت نے اور زیادہ سفاکی سے مداخلت شروع کر دی، منتخب حکومت کو برطرف کر دیا گیا، ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، کبھی کوئی سخت گیر گورنر لگادیا جاتاتو کبھی اسے ہٹا کر کوئی نرم خوگورنر لگا دیا جاتا۔ الٹرا سیکولر جموں کشمیرلبریشن فرنٹ پر جبر، اس کے رہنما مقبول بٹ کی گرفتاری اور مقبول بٹ پر تشدد کی ذمہ داری دہلی کے پسندیدہ طالع آزما جگ موہن پر عائد ہوتی ہے۔ نوجوان کشمیری گرفتار کئے جاتے، تشدد کا نشانہ بنتے اور بھارتی فوجیوں کے ہاتھ مارے جاتے، ہر عمر کی خواتین زیادتی کا نشانہ بن رہی تھیں۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ کشمیریوں کے حوصلے توڑ دیئے جائیں لیکن بہت سے نوجوانوں نے بندوقیں اُٹھالیں اوریہ بھی نہیں دیکھا کہ بندوق آئی کہا ں سے ہے۔

1970ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے زیر تسلط کشمیر میں میری مقبول بٹ سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ دہلی اور اسلام آباد، دونوں کے برابر خلاف تھے اور وہ ایک ایسے کشمیر کی تخلیق نو چاہتے تھے جو ان دونوں میں سے کسی پربھی انحصار نہ کرتا ہو۔ وہ چے گویرا کے بہت بڑے مداح تھے۔ پاکستان میں 1969ء کی ایوب خان کو لے ڈوبنے والی سرکشی کے پر آشوب پس منظر میں میری مقبول بٹ سے ملاقات ہوئی تو وہ کشمیر میں جلد کامیابی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ میری رائے تھی کہ ایک چھوٹی سی اقلیت کا جوش و ولولہ کافی نہیں ہوتا۔ انہوں نے مجھے یاد دہانی کرائی کہ ہر انقلابی گروہ (کیوبا، ویت نام اور الجزائر) نے ایک اقلیت کے طور پر ہی کام کا آغاز کیا تھا۔

بھارتی انتظامیہ نے 1976ء میں مقبول بٹ کو گرفتار کیا اور ایک پولیس والے کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنا دی۔ انہیں سودے بازی کےلئے 1984ء تک جیل میں رکھا گیا تاآنکہ برمنگھم میں کشمیری جنگجوﺅں کے ہاتھوں ایک بھارتی سفارت کار کے اغوا اور قتل کے جواب میں انہیں پھانسی دیدی گئی۔ مقبول بٹ نے جو خلا چھوڑا اسے جلد ہی پاکستان کے بھیجے ہوئے، مسلح کئے ہوئے اور پالے ہوئے باریش افراد پورا کرنے والے تھے۔

1990ء کی دہائی کے اواخر میں، سالہاسال کے بین المسلمین گروہی تشدد کے بعد، افغانستان طالبان کے تسلط میں آگیا…….. انہیں بھی پاکستان نے ہی مسلح کیا تھا، انہیںبھی پاکستان نے ہی فنڈ کیا تھا اور انہیں بھی پاکستان نے ہی پالا پوساتھا۔ پاکستان خود بدعنوان سیاستدانوں کے شکنجے میں تھا اور باہمی فرقہ وارانہ کش مکش ہر ماہ درجنوں زندگیاں ختم کر رہی تھی۔ بھارت میں قومی سیاست کانگرس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا راستہ صاف ہو گیا تھا۔ افغان جنگ کے آزمودہ کار سپاہی جوں جوں سرحد پار جاکر اپنی بالادستی کے لئے برسرپیکار ہونے لگے توں توں کشمیر اندر جنگجو اسلام پرست گروہوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ بڑے حریف مقامی حزب المجاہدین اور پاکستان کی سپانسر کی ہوئیں لشکرطیبہ اور حرکت المجاہدین تھیں۔ ان گروہوں نے ایک دوسرے کے جنگجو قتل کئے، مغربی سیاح اغوا کئے، کشمیری ہندﺅوں کو ان علاقوں سے نکال پھینکا جہاں وہ صدیوں سے رہ رہے تھے، ان مسلمانوں کو سزا دی جو سیکولر ہونے پر بضد تھے اور گاہے بگاہے چند بھارتی فوجی یا اہل کار بھی مارتے رہے۔ ہر گروہ بوقت ضرورت دہلی سے سودے بازی پر تیار رہتا بجائے اس کے کہ وہ متحد ہو کر بھارتی حکومت کو سزا دیتے۔ گورنر جگ موہن نے ہر ممکن مشکل کھڑی کی کہ یہ مسلم گروہ ر نگروٹ بھرتی نہ کر پائیں۔ رات رات بھر گھر گھر تلاشی روز کا معمول بن گیا۔ نوجوان بھارتی فوجیوں کے ہاتھ ایسے اغوا ہوتے کہ پھر کبھی ان کی شکل دکھائی نہ دیتی۔ خود ستائشی پر مبنی اپنی یاداشت فروزن ٹربولینس میں جگ موہن نے لکھا: ظاہر ہے بچھوﺅں سے بھری وادی اندر میں ننگے پاﺅں نہیں پھر سکتا تھا۔ میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ جگ موہن کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ بندوق برداروں کی حمایت میں اضافہ ہوا۔

کشمیر پر 1996ء تک، کافی حد تک بادل نخواستہ، دہلی براہ راست حکومت کرتا رہا تاآنکہ فاروق عبداﷲ ایوان اقتدار میں واپس آگئے___ زیادہ تر دیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے بعد سے بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنا کر فاروق عبداﷲ نے اپنی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر ڈالی اور اگر آزادانہ انتخابات ممکن ہوتے تو بطور سیاستدان فاروق عبداﷲ کا مستقبل کب کا تاریک ہو چکا ہوتا۔

بھارتی اور پاکستانی فوجوں کا شمار دنیا کی چند بڑی فوجوں میں ہوتا ہے۔ ستمبر 1998ء میں پاکستانی فوج نے کارگل دراس سیکٹر میں، جہاں بھارتی دفاع بالکل غائب تھا، بھارتی بارڈر ڈیفنس کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔ کارگل دراس سیکٹر ہمالیہ اندر سطح سمندر سے 14000 فٹ بلند بیاباں ہے جہاں کشمیر کی چین اور پاکستان سے سرحد ملتی ہے۔ یہ خطہ پہاڑی چوٹیوں اور گہری وادیوں پر مشتمل ہے جہاں درجہ حرارت عموماً منفی بیس ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے اور ہاں یہاں پیلے جنگلی پھولوں کا بھی راج ہے جو گرمیوں کے موسم میں مہینے بھر کے لئے کھلتے ہیں۔ گاﺅں والے ان پھولوں کی پتیاں کھاتے ہیں اور ان کا یقین ہے کہ ان پتیوں سے جسم اور روح، دونوں کا علاج ہوتا ہے۔ یہاں کے اکثر باسی یا تو شیعہ ہیں یا بدھ جو مل جُل کر سکون سے رہتے ہیں اور دونوں کے بیچ دیگر باتوں کے علاوہ ایک مشترکہ بات ہمسائے سے درآمد شدہ سنی بنیاد پرستوں سے نفرت ہے۔ نواز شریف حکومت کی مکمل آشیرباد سے پاکستان فوج نے 1947ء اور 1965ء کی طرح لشکریوں کا بھیس بنائے فوجیوں اور لشکر طیبہ کے دستوں کی معیت میں لائن آف کنٹرول عبور کر کے کئی چوٹیوں اور دیہاتوں پر قبضہ کر لیا۔ بھارت نے سری نگر سے دستے یہاں روانہ کئے اور روز روز کی گولہ باری سے مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن کر ڈالی۔

آخر کیا وجہ تھی کہ پاکستان ایسی مہم پر چل پڑا جس کی ناکامی روز روشن کی طرح عیاں تھی؟ اس بات کا ہرگز کوئی امکان موجود نہیں تھا کہ جرنیل یا سیاستدان فاتح بن کر وہاں داخل ہوں گے۔ اسلام پر ستوں کے سوا پاکستان کے عام شہریوں کو شائد ہی کچھ پتہ ہو کہ اوپر پہاڑوں پر کیا ہو رہا ہے۔ نہ ہی انہیں کشمیر کی تقدیر سے کوئی خاص دلچسپی تھی۔ جنگ کی اصل وجوہات نظریاتی تھیں۔ لشکر کے سربراہ حافظ محمد سعید نے واشنگٹن پوسٹ کی پامیلا کانسٹیبل کو بتایا: ”بدلہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ ہم نے افغانستان میں سُپر پاور روس کو شکست دی، ہم بھار ت کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ ہم اﷲ کی مدد سے لڑتے ہیں اور ایک بار جہاد شروع کر دیں تو پھر کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا“۔ ان کی دلیل کو پاکستانی اہل کار دہرا رہے تھے۔ بھارتی اتنے طاقتور نہیں تھے جتنے کہ روسی اور پھر خطے میں صرف بھارت کی ایٹمی ہتھیاروں پر اجارہ داری تھوڑی تھی لہٰذا اس بات کا کوئی خدشہ موجود نہیں تھا کہ ایک محدود جنگ پھیل جائے گی۔ دوم، اور یہ بات زیادہ اہم تھی، کہ پاکستانی اقدامات کے نتیجے میں یہ تنازعہ عالمی، سطح پر اجاگر ہو گا اور افغانستان اور بلقان کی طرح امریکہ ’اس طرف‘ کھڑا ہو گا۔

ادھر میدان جنگ اندر بھارت کو پہلے پہل تو ہزیمت اٹھانی پڑی لیکن پھر بھارت نے مزید فوجی دستے، گن شپ ہیلی کاپٹر اور لڑاکا طیارے بھیجے جو سرحد عبور کر کے پاکستانی تنصیبات پر بمباری کرنے لگے۔ اگر ناٹو طیارے سرحدوں کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں تو بھارتی طیارے کیوں نہیں کر سکتے؟ مئی 1999ء میں پیلے گلابوں کے کھلنے کا موسم آتے آتے بھارتی فوج کھوئی ہوئی اکثر چوٹیوں پر دوبارہ قابض ہو چکی تھی۔ ایک ماہ بعد بھارتی فوجیں لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے لئے تیار تھیں۔ پاکستان کے سیاسی رہنماﺅں کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے اور پرانی عادت کے مطابق انہوں نے وائٹ ہاوس سے درد مندانہ اپیل کی۔

پاکستانی فوج سے سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کے لئے ایک امریکی جرنیل بھیجا گیا جبکہ نواز شریف کو وائٹ ہاﺅس طلب کیا گیا۔ کلنٹن نے نواز شریف سے کہا کہ نہ صرف فوجی دستے واپس بلائے جائیں بلکہ بنیاد پرستوں کو بھی ان علاقوں سے واپس بلایا جائے جن پر وہ قابض ہو کر بیٹھے تھے۔ ان مطالبات کے جواب میں کسی چیز کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔ بھارت پر کوئی دباﺅ نہیں ڈالا گیا۔ پاکستان کو کوئی رقم نہیں دی گئی۔ نواز شریف نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ نواز شریف کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین دورہ واشنگٹن سے پہلے کہہ رہے تھے۔ ’کشمیری سرکشی میں بڑے پیمانے پر لوگ شامل ہیں یہ مقامی ہے اور خود بخود ابھری ہے اور ہم اسے نہیں روک سکتے۔‘ مگر انہیں روکنی پڑی۔ تنازعے کو عالمگیر توجہ حاصل ہوئی مگر اس طرح نہیں جیسے پاکستان نے چاہا تھا۔ چین کو حریف خاص کے طور پر ذہن میں رکھتے ہوئے امریکہ نے پاکستان کو فارغ کر کے بھارت کی طرف رُخ موڑ لیا تھا۔

نجی محفلوں میں نواز شریف امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ بھارت سے صلح کے حق میں ہیں اور کارگل جنگ کے خلاف تھے مگر فوج نے ان کی ایک نہیں چلنے دی۔ یہ جھوٹ واشنگٹن اور دہلی میں تو خوب چلا مگر پاکستانی اعلیٰ قیادت اس پرطیش میں آگئی۔ وطن واپسی پر نواز شریف نے فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کی جگہ اپنے ایک معتمد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل خواجہ ضیا الدین کو نامزد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے ضیاالدین کے ہمراہ امریکہ کا دورہ کیا جس کا مقصد ضیا الدین کی تقرری کا اجازت نامہ حاصل کرنا تھا اور اس دورے کی قطعاً کوئی تشہیر نہیں کی گئی۔ ان دونوں کا وائٹ ہاوس، پینٹاگون اور سی آئی اے والوں نے استقبال کیا اور بہت سے وعدے وعید کئے گئے۔

گیارہ اکتوبر 2000ء کو مشرف سری لنکا کے تین روزہ سرکاری دورے سے واپس آرہے تھے کہ نواز شریف نے ان کو برطرف کرنے اور ضیا الدین کو ترقی دینے کا اعلان کر دیا۔ کراچی ائرپورٹ کی انتظامیہ کو ہدایات دی گئیں کہ وہ جنرل مشرف کے طیارے کو اندرون سندھ ایک چھوٹے سے ہوائی اڈے کی طرف موڑ دیں جہاں انہیں گرفتار کیا جانا تھا۔ فوج نے ضیا الدین کی اتھارٹی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کراچی کمانڈر نے ائر پورٹ پر قبضہ کر کے طیارے کو لینڈ کرنے کا حکم دیا۔ مشرف کا پورے فوجی اعزاز کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ دارالحکومت کے فوجی کمانڈر نے شریف برادران اور جنرل ضیا الدین کو حراست میں لے لیا۔ پہلی بار واضح امریکی ہدایات کے برعکس بغاوت کی گئی: ان واقعات سے تین روز قبل کلنٹن نے فوجی بغاوت سے باز رہنے کی تنبیہہ کی تھی۔ شریف برادران کے فارغ ہونے پر پاکستان میں ہر شہر اندر گلی گلی خوشیاں منائی گئیں۔

مشرف نے کرپشن کے خاتمے اور لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کا وعدہ کیا، ایک غیر محتاط انٹرویو میں انہوں نے سیکولر ترکی کے بانی کمال اتاترک سے متاثر ہونے کا اعلان کر دیا۔ اخبارات یا سیاسی جماعتوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ دو سال گزرے تو مشرف اندر اول اول کرپشن کے خاتمے کا جوش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ انتہا کے ایماندار شخص جنرل امجد کو احتساب بیورو سے کراچی کمانڈ بھیج دیا گیا۔ جنرل امجد نے ملک کے ہر ادارے اندر موجود بے حساب کرپشن کے ثبوت جمع کئے تھے۔ سپریم کورٹ کے جج اس سائل کے ہاتھوں بکنے پر تیار تھے جو زیادہ بولی دے (وکیل موکلوں سے ’جج فیس‘ کے نام پر لاکھوں کی مدمیں رقم طلب کر رہے تھے جو مقدمہ شروع ہونے سے قبل ادا کی جاتی)۔ کئی سینئر سرکاری اہل کار بڑے کاروباری اداروں اور منشیات فروشوں کے تنخواہ دار تھے، کاروباری حضرات بنکوں سے اربوں کے قرضے لے کر جیب میں ڈال چکے تھے، سینئر فوجی اہلکار رشوت خوری کے عادی ہو چکے تھے۔ جنرل امجد بے سود اصرار کرتے رہے کہ نئی حکومت افواج پاکستان کی تطہیر کرے۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسروں پر مقدمہ نہیں چلتا، انہیں سزا نہیں ملتی تب تک پاکستان ایک ناکام ریاست بنا رہے گا جس کا انحصار غیر ملکی خیرات اور منشیات کے منافع سے حاصل ہونے والے کالے دھن پر ہو گا۔ ان کے تبادلے سے تو لگتا ہے کہ وہ یہ جنگ ہار گئے۔

پاکستان میں بہت سے لوگ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ پرویز مشرف اسلام پرستوں کو غیر مسلح کریں گے اور بڑے شہروں میں امن وعامہ کسی نہ کسی حد تک بحال کیا جائے گا۔ اس میدان میں بھی حکومت نے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی کیونکہ فوج اندر اسلام پرستوں کی گھس بیٹھ بارے حکومت نے درست اندازہ نہیں لگایا تھا۔ دسمبر 1999ء میں لاہور گیا تو ایک پریشان کن واقعہ سُنا۔ بھارتی فوجیوں نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو بتایا کہ کارگل دراس اندر ہنوز ایک چوٹی پر پاکستانی فوجیوں کا قبضہ ہے اور یہ معاہدہ جنگ بندی کی خلاف ورزی تھی۔ ایک سینئر فوجی افسر تحقیق کے لئے وہاں گیا اور اس نے چوٹی پر قابض فوجی کپتان کو حکم دیا کہ وہ قبضہ چھوڑ کر لائن آف کنٹرول کے اس پار پاکستانی حصے میں واپس آجائے۔ کپتان نے سینئر فوجی افسر اور اعلیٰ فوجی قیادت کو اسلام سے غداری کا الزام دیتے ہوئے افسر کو گولی سے مار ڈالا۔ اسلام پرست کپتان کو آخر کار غیر مسلح کیا گیا، ایک خفیہ فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دیدی گئی۔

اگر، جیسا کہ عموماً سمجھا جاتا ہے، فوج کا پچیس سے تیس فیصد حصہ اسلام پرستوں پر مبنی ہے تو فوج کی جہادیوں کے خلاف اقدام نہ اُٹھانے کی وجہ بخوبی سمجھ میں آتی ہے: فوج کو ڈر ہے کہ کہیں خانہ جنگی نہ چھڑ جائے۔ مشرف کو اس وقت سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے اور یہ صرف مشرف کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ بنیاد پرست اتراتے پھر رہے ہیں کہ دس سال کے اندر اندر ان کا فوج پر قبضہ ہو گا اور یوں پاکستان میں ایک خوفناک منظر اُبھرتا ہے: ایٹمی لبلبی پر اسلام پرست انگلی۔ واشنگٹن، دہلی اور بیجنگ میں بیٹھے ذہن اس بات پر سوچ بچار کر رہے ہیں مگرعملاً ابھی کچھ نہیں کرپائے۔

آزادی کشمیر کے حق میں نہ تو پاکستان ہے نہ بھارت۔ بیجنگ بھی نہیں کہ وہ تبت پر اس کے اثرات بارے فکر مند ہے۔ اس سب کے باوجود کشمیر کے لوگ ہیں کہ آزادی کے ہی آرزو مند دکھائی دیتے ہیں۔ ادھر وادی اندر فاروق عبداﷲ اور اس کے بی جے پی والے سنگی ساتھی، کرن سنگھ کی پشت پناہی کے ساتھ، اس صوبے کو بلقان بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کے تحت اسے مذہبی ولسانی بنیادوں پر آٹھ حصوں میں تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ دریں اثنا جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے خود مختار کشمیر کا نقشہ شائع کیا ہے جس کی سرحدیں بھارتی، پاکستانی اور چینی مقبوضہ کشمیر پر مبنی ہیں۔ اس تنظیم کے ایک پرانے رہنما ہاشم قریشی نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ جدید ریاست کے تمام اسباب آرائش کے خواہاں نہیں ہیں۔ وہ فوج رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اس بات پر راضی ہوں گے اگر کشمیر کی سرحدوں کی چین، بھارت اور پاکستان ضمانت دیں تاکہ کشمیر، جس کی وجہ سے تین دفعہ جنگ ہوئی، ایک سیکولر اور کثیر ثقافتی جنت بن جائے جو پاکستان اور بھارت دونوں کے لئے کھلی ہو۔

فی الحال یہ نیک مگر یوٹوپیائی خیال ہے۔ سیاسی منظر نامہ انتہائی مایوس کُن ہے۔ (پاکستان میں ایک جہادی گروہ کے جاری کردہ ایک کتابچے میں چندے کی اپیل کی گئی ہے: جہاد شروع کرنے کی کل فیس 140,000 روپے ہے۔ کلاشنکوف کی قیمت 20,000 روپے، ایک گولی کی قیمت 35 روپے جبکہ کین وڈ وائرلیس کی قیمت 28,000 روپے بتائی گئی ہے)۔

یہاں رہنے والوں کے لئے گیارہ ستمبر کی وجہ سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ چند دن قبل جیش محمد نے سری نگر میں خوفناک دہشت گرد کارروائی کی۔ چالیس سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ یہ وہی گروہ ہے جس نے چند سال قبل پاکستان کے شہر بہاولپور میں عیسائیوں کا قتل کیا تھا۔ اس گروہ کو غیر مسلح نہ کر سکنے کی وجہ یہ ہے کہ اسے پاکستانی ملٹری انٹیلی جنس نے تخلیق کیا تھا۔ سرکاری اور غیر سرکاری کے بیچ لاینحل تعلقات پائے جاتے ہیں۔ جوابی کارروائی کے طور پر بھارت نے پاکستانی علاقے میں گھس کر کچھ نشانوں پر بمباری کی۔ پیغام بالکل واضح تھا۔ اگر مغرب افغانستان کو سزا دینے کے لئے اس پر بمباری کر سکتا ہے تو بھارت بھی پاکستان کے ساتھ یہ سب کر سکتا ہے۔ انہی گروہوں میں سے کسی نے جب دسمبر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا تو دونوں ملک جنگ کے کنارے پہنچ گئے۔ پاکستان نے بنیاد پرست فوجوں کے رہنماﺅں کے خلاف تو اقدامات کئے مگر ان کے ارکان حیرت ناک طور پر غائب ہو گئے۔

جنوبی ایشیا کی تاریخ کا وہ باب جو 1947ء میں تقسیم کی صورت کھولا گیا اسے اب بند کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کی اکثریت دیرپا امن چاہتی ہے۔ خطے میں اس وقت تین بڑی ریاستیں ہیں: بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش جن کی مجموعی آبادی ایک ارب سے زائد ہے۔ ان کے مضافات میں سری لنکا، بھوٹان اور نیپال واقع ہیں۔ لسانی تنوع کے باوصف اس خطے کی تاریخ اور ثقافت مشترکہ ہے۔ اقتصادی اور سیاسی منطق کا تقاضہ ہے کہ جنوب ایشیائی یونین تشکیل دی جائے اور اس کنفیڈریشن میں ریاستیں رضا کار طور پر شامل ہوں۔ ایک ایسے ڈھانچے میں جہاں کسی ریاست کی خود مختاری کو خطرہ نہیں ہوگا، نہ صرف کشمیر بلکہ سری لنکا اندر تامل علاقے کی مکمل آزادی کی ضمانت دی جا سکے۔ فوجی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی اور چین کے ساتھ ساتھ مشرق بعید کے ساتھ تجارتی تعلقات سے پورا براعظم بہرہ مند ہو سکتاہے۔ ایمپائر ان دنوں بڑے ثالت کا کردار ادا کرتی پھرتی ہے مگر اس کے پیش کردہ حل میں اس کے اپنے مفادات کو پہلی ترجیح دی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیائی ریاستوں اور چین کے لئے زیادہ بہتر ہو گا کہ وہ ایمپائر کی ثالثی کو خیر باد کہہ کر ایک دوسرے سے براہ راست مکالمہ کریں۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیاتو اس صدی کے اختتام میں کبھی انہیں اندازہ ہو گا کہ ایمپائر کی مہربان نظروں کے سامنے وسیع سرمایہ داری بھارت اور چین کے ٹکڑے کر رہی ہے۔ سوچنے کا وقت ہے۔

Tariq Ali
+ posts

طارق علی بائیں بازو کے نامور دانشور، لکھاری، تاریخ دان اور سیاسی کارکن ہیں۔