دنیا

نیا افغانستان: 97 فیصد غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور

عثمان توروالی

کچھ شرارتی لوگ سوات میں اسلامی شریعت نافذ کرنے نکلے تھے۔ اسلامی شریعت کی نفاذ کے لئے حکومت اور عوام پر کنٹرول چاہیے تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ان لوگوں نے ”سی ڈی کیسٹس“ میں ہر جگہ خودکش دھماکے ریکارڈ کیے اور وہ پورے سوات میں پھیلا دیئے۔ میرے ذہن میں اب بھی وہ منظر اسی طرح موجود ہے، جب ایک خاتون کو کوڑے مارے جارہے تھے اور ارد گرد مرد کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ اس تماشے کے چند ہفتے بعد چار باغ میں خوب چہل پہل تھی۔ دہشت اور خوف کے درمیان زندگی اپنا وجود اور رنگ دکھا رہی تھی۔ بچے مدرسے سے واپسی کی راہ لیے ہوئے تھے اور مزدور اپنا پسینہ پونچھتے ہوئے رزق کا سامان اپنے بچوں کے لیے اٹھائے جارہے تھے، جن کی نگاہیں اپنے بابا کے انتظار میں دروازہ تک رہی تھیں۔

دریں اثنا، چار باغ کے پولیس اسٹیشن کے پاس سے گرد اٹھی۔ ٹی وی میں اللہ اکبر کی آوازیں آتی ہیں۔ اندھیرا چھا جاتا ہے اور سماعت کام چھوڑ جاتی ہے۔ ہر طرف معصوم لوگوں کا خون اور چیتھڑے پڑے ہوتے ہیں۔ کوئی حالت نزع میں کراہ رہا ہوتا ہے اور کوئی مدد کی آوازیں لگاتا ہے، لیکن شریعت کا نام لینے والے اس کو فتح سمجھتے ہیں۔ کامیابی، شریعت کا نفاذ اور اسلامی پرچم لہرانے کی خوشی۔ اس منظر کا نظارہ کرنے والے مزید سہم جاتے، ڈگمگا جاتے اور دہشت کی فضا میں چپ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔

بظاہر وہی چپ اب افغانستان میں ہر طرف عوام میں سرایت کر گئی ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے سے اب تک بے شمار جانیں ضائع ہوئیں ہیں۔ لاتعداد فاقوں اور تنگ دستی کے بیچ زندگی کہیں کھو گئی ہے۔ مایوسی اور بیزاری کے بادل ہر طرف منڈلا رہے ہیں۔ کئی لوگ بیرونی دنیا کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کئی لوگوں کے پاس اپنی سانس کے علاوہ اس دنیا میں کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔

پچھلے ہفتے اقوام متحدہ نے افغانستان میں بنیادی انسانی حقوق پر اپنی رپورٹ پیش کی۔ یہ رپورٹ پچھلے 10 مہینوں میں بنیادی انسانی حقوق کا احاطہ کرتی ہے، جب سے افغانستان میں افغان طالبان نے حکومت سنبھالی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق خراسان کے صوبے سے اسلامی ریاست نامی ایک گروہ نے 700 لوگوں کو قتل کیا اور ان کے حملوں سے 1406 لوگ گھائل ہوئے ہیں۔ ان میں اکثریت مذہبی اقلیتوں کی تھی، جو سکول، عبادت کرنے جاتے یا دوسرے روزمرہ کام کرنے جاتے ہوئے مارے گئے۔ نمائندہ اقوام متحدہ مارکوز پوٹزل کے مطابق بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے ہوئے لوگوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ کئی صورتوں میں خواتین اور بچوں سے تعلیم، کام اور دوسرے روزمرہ کام کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ افغان فورسز اور سابقہ حکومتی اہلکاروں کو”ایمنیسٹی“ دینے کے باوجود پچھلے 10 مہینوں میں 160 لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ کئی صحافیوں کو اپنے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے، کئی کو گھناؤنی سزائیں دی گئیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق میڈیا کے آزادانہ کام کرنے پر بھی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ آزادی رائے اور احتجاج کرنے والوں کو ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یو این ڈی پی کے مطابق افغانستان میں غربت کی شرح 97 فیصد ہے اور اس سیاسی ابتری کے دوران معاشی حالت مزید خراب ہورہی ہے۔ یو این اے ایم اے (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 59 فیصد آبادی کو انسان دوست ہمدردی کی شدید ضرورت ہے۔ ہر آنے والا دن افغانستان کے لئے ایک بڑے سے بڑے چیلنج کا سامنا ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مشرقی افغانستان میں سیلابوں سے کم از کم 32 لوگ ہلاک ہوئے، سینکڑوں گھر تباہ ہوئے اور سیلاب کئی فصلوں کو اپنے ساتھ بہا لے گئے ہیں۔

افغانستان میں خواتین کی حالت زار کا دنیا کے کسی دوسرے حصے میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ افغانستان حکومت نے خواتین کو برقعہ پہنے کا حکم دیا ہے۔ بیس سال جنگ کے دوران پڑوسی ملک میں ہر دوسرے گھر میں جنگ اور دھماکوں کی وجہ سے معزور لوگ پڑے ہیں۔ کئی مرد کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ گھر کا خرچ مجبوراً عورت کی کمائی پر پورا ہوتا ہے، جس کے لیے وہ”ٹوپی والے برقعے“ پہنے شدید گرمی میں کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔

افغانستان کی موجودہ حالت کی پیش نظر ’UNAMA‘ رپورٹ نے تمام بیرونی ممالک کو افغانستان کی مدد جاری رکھنے کی اپیل کی ہے۔

دوسری طرف، افغانستان میں طالبان کا سخت گیر رویہ خطے میں دوسرے ممالک کے لئے بھی پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔ طالبان حکومت کی اس روش کو دیکھ کر کئی عناصر پاکستان میں سر اٹھا رہے ہیں اور پاکستانی حکومت سے فاٹا کا انضمام ختم کرنے اور فاٹا، ملاکنڈ وغیرہ جیسے علاقوں میں شریعت کے نفاذ کا مطالبا اور بات کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف حکومت بلکہ پاکستانی عوام کے لیے بھی پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔ کیونکہ طالبان کا تجربہ پاکستانی عوام پہلے ہی سے کر چکی ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت چکی ہے۔

Usman Torwali
+ posts

عثمان توروالی سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا ہے۔ مختلف جرائد کے لئے سیاسی موضوعات پر کالم نگاری کرتے ہیں۔