خبریں/تبصرے

افغانستان: طالبان خواتین کو اغوا، قید، زبردستی شادیاں کر رہے ہیں

لاہور (جدوجہد رپورٹ) برطانوی فلمساز رمیتا ناوائی کی نئی دستاویزی فلم ’افغانستان انڈر کور‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان خواتین کو اغوا کرنے اور قید کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فلم میں خواتین کے ساتھ طالبان کے سلوک کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ فلم 2020ء کے اوائل میں شروع کی جانے والی تحقیق پر مبنی ہے۔

’این پی آر‘ کے مطابق فلمساز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان حصوں کو فلمانہ شروع کیا جن پر طالبان قبضہ کر رہے تھے، جن علاقوں پر وہ قبضہ کر رہے تھے، وہاں خواتین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا وہ خوفناک تھا۔ انکا کہنا ہے کہ یہ دستاویزی فلم ایک انتباہ کے طورپر بنائی گئی ہے تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ یہاں کیاکچھ ہو رہا ہے۔

دستاویزی فلم کو دارالحکومت کابل کے باہر افغانستان کے ان صوبوں میں فلمایا گیا ہے، جہاں خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن خاصا سخت ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دینے کے اپنے وعدے کو توڑ دیا ہے۔ چند مستثنیات کے ساتھ خواتین کو اب کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سڑکوں پر نکلتے وقت سرسے پاؤں تک ڈھانپے رکھنے کی پابندیاں ہیں۔ بہت سی لڑکیاں اور عورتیں اخلاقی خلاف ورزیوں پر گرفتار کی گئی ہیں، یا اغوا کر کے طالبان میں سے کسی سے شادی کرنے پر مجبور کی گئی ہیں۔

خواتین اور لڑکیاں جیلوں میں نام نہاد اخلاقی جرائم کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ ان کے مقدمات سرکاری طور پر ریکارڈ نہیں کئے گئے تھے۔ اسی وجہ سے انہیں صرف لاپتہ قرار دیا جا رہا تھا۔ تاہم آہستہ آہستہ اہل خانہ کو پتہ چل گیا کہ وہ کہاں ہیں اور انہوں نے رہائی کیلئے بات چیت کی کوشش شروع کر دی تھی۔ طالبان خواتین قیدیوں کو دنیا سے خفیہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دستاویزی فلم میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ اب طالبان خواتین اور لڑکیوں کو اغوا کر رہے ہیں، انہیں خاندان کی رضامندی کے بغیر اور روایات کے مطابق دلہن کی قیمت دیئے بغیر لے جا رہے ہیں۔

رمیتا ناوائی کے مطابق انہیں ایسے ثبوت ملے ہیں کہ یہ سلسلہ طالبان کے اندر اعلیٰ سطح پر ہو رہا ہے۔ طالبان کمانڈر جب کوئی خوبصورت اور پرکشش نوجوان عورت یا لڑکی دیکھ لیں تو پہلے سرکاری راستہ اپناتے ہوئے شادی کیلئے ہاتھ مانگا جاتا ہے۔ اگر انکار کر دیا جائے تو وہ لڑکی کو اغوا کر لیتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر موقع پر ہی شادی کر لیتے ہیں، تاہم اکثر واقعات میں لڑکی کو لے جاتے ہیں اور گھر والوں کی اس تک رسائی نہیں ہوتی۔ اس عمل میں خاندان کو مارا پیٹا جاتا ہے، کیونکہ یقینا خاندان کے مرد افراد احتجاج کرینگے۔

انکا کہنا تھا کہ بدخشاں کے صدر مقام فیض آباد میں وہاں کی خواتین بہت ہی جراتمندانہ انداز میں لباس کی پابندیاں توڑ رہی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں ڈر تو لگتا ہے، لیکن یہ بغاوت کی ایک شکل ہے۔

اکثر واقعات میں خاندانوں کو بھاگنا پڑتا ہے۔ ایسے خاندانوں اور خواتین کی مدد کیلئے خواتین کی زیر قیادت محفوظ گھروں کا ایک زیر زمین نیٹ ورک بھی قائم ہے۔ یہ خفیہ سیف ہاؤسز کا نیٹ ورک خواتین چلا رہی ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے قبضہ کے بعد خواتین میں خودکشی کی شرح میں بے مثال اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ماضی میں بھی خواتین میں خود کشیوں کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ رہی ہے۔ تاہم اب غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts