سیف اللہ
درسگاہوں کا بنیادی مقصد طالبعلموں کو تعلیم فراہم کرنا ہے۔ وہ تعلیم جو کوئی بھی ریاست قومی جمہوری انقلاب کے فریضے کے طور پر اپنے شہریوں کو مفت فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
پسماندہ ریاستوں میں سرمایہ داری اور اس کے حاشیہ برادروں نے تعلیم کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے وہ اس نظام کی متروکیت کو ظاہر کر رہا ہے۔
بالخصوص پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت دیگر خطوں میں کئی تعلیمی اداروں کے اندر فوج کی براہ راست مداخلت دیکھنے کو ملتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذہنی غلام بنانے کے لیے من چاہا نصاب پڑھانا ہی کافی نہیں رہا بلکہ اب بندوق کے زور پر حب الوطنی کے جذبات کو ابھارتے ہوئے طلبہ کے اندر سے ظلم وجبر کے خلاف ابھرتی ہوئی بغاوت کو روکنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا جائے گا جو طلبہ کو کسی بھی طور پر ریاستی اطاعت گزار بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
گزشتہ عرصے گلگت میں قراقرم یونیورسٹی کے اندر بھی فوج نظر آئی۔
یہ ایسی رسگاہیں ہیں جن میں ایک طرف طلبہ سیاست پر پابندی لگائی جاتی ہے اور دوسری طرف انہیں 14 اگست کے پھیکے جشن منانے کو مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک اور واقعہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ایک نواحی علاقے میں پیش آیا، جس میں فوج نے 14 اگست ایک تعلیمی ادارے کے اندر زبردستی منانے کی کوشش کی، جس پر عوام کی طرف سے فوج کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور بالاآخر فوج کو واپس جانا پڑا۔
دوسری جانب،ایک اور اہم مسئلہ ’میرٹ‘ ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر کے علاقے عباسپور کے اندر میٹرک کے ایک طالبعلم نے رزلٹ آنے پر خودکشی کر لی۔ یہ تعلیمی نظام ہے طلبہ کا قاتل بنا ہوا ہے۔ اس طبقاتی نظامِ تعلیم میں ایک طرف طلبہ کے اوپر نفسیاتی جبر کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اگر میرٹ کو دیکھا جائے تو اس کا بہت گھٹیا کردار نظر آتا ہے۔ طلبہ کے اندر اس بوسیدہ میرٹ کی لالچ میں مقابلہ بازی کی دوڑ لگا دی گئی ہے۔ طلبہ کی نفسیات کے متضاد مضمامین زبردستی پڑھائے جاتے ہیں اور بالاآخر نوجوان خودکشیاں کر رہے ہیں، ڈیپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس تعلیمی نظام کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میٹرک کا طالبعلم قریباً سولہ سترہ سال کا بچہ،تعلیمی حوالے سے ذہنی طور پر اس قدر دباؤ کا شکار ہے کہ وہ خود کو پھانسی لگا رہا ہے۔
طلبہ کی باہمی جڑت کے ساتھ طلبہ یونین کی بحالی اور طلبہ کی جدوجہد سے ہی طلبہ کے تمام تر مسائل کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ جب تک طلبہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کرتے تب تک طلبہ کی جانیں جاتی رہیں گی۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر ہی ایک ایسا سماج قائم کیا جا سکتا ہے، جہاں نہ صرف تعلیم کے حقیقی مقصد کو سمجھا جائے گا بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہر طرح کی محرومی کا خاتمہ کیا جائے گا۔