لاہور (جدوجہد رپورٹ) سکیورٹی فورسز کا ایران بھر میں احتجاج کرنیو الے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، پرتشدد احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز کے تشدد سے مبینہ طور پر 5 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
منگل کے روز تہران میں مظاہرین پر پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔ شام 5 اور 8 بجے بڑے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔ درجنوں افراد کو ابھی تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تاہم احتجاج کا سلسلہ ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد حجاب اتار کر احتجاجوں کا حصہ بن رہی ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق مغربی ایران سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی دارالحکومت ایران کے دورے کے دوران حجاب پولیس کے ہاتھوں گرفتاری اور دوران حراست ہلاکت نے اس عوامی غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
پیر اور منگل کو دارالحکومت تہران سمیت متعدد مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ کردوں کے شہر ساکیز میں مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ دو اوردیواندارریہ قصبے میں اور پانچوں شخص دیہگولان میں ہلاک ہوا۔
تہران میں ایک مظاہرے کے مقام پر لی گئی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ مظاہرین ایک جلتی ہوئی موٹر سائیکل کے گرد جمع ہیں۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں مظاہرین کو حکام کے ساتھ جھڑپ کے بعد زخمی ہوتے دکھایا گیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں انٹرنیٹ تک رسائی پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے۔
ادھر ایران نے مظاہرین کے دوران کسی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ نیم سرکاری فارس نیوز ایجنسی نے اطلاع دی کہ سکیورٹی فورسز نے کئی شہروں میں مظاہرین کو منتشر کر دیا اور پولیس نے کچھ احتجاجی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ایران انٹرنیشنل کے مطابق اخلاقی پولیس کے ایک سینئر اہلکار کرنل احمد مرزائی کو امینی کی موت کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے قبل ازیں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے حکم پرامینی کی موت کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
صدر رئیسی نے لباس کے ضابطوں کو سختی سے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں ایک خاتون کو دکھایا گیا تھا، جسے ایران کے گشتی اہلکاروں نے ایک تیز رفتار وین سے پھینکا تھا۔
حکومتی کریک ڈاؤن نے موسم سرما میں ایرانی خواتین کی احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا تھا، خواتین سکارف کے بغیر تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے احتجاج ریکارڈ کر رہی ہیں۔ مہسا امینی کے قتل کے بعد یہ احتجاج ایک مرتبہ پھر شروع ہو چکا ہے۔